پاکستان میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو برطانیہ سے وطن واپس لانے کے معاملے پر حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان لفظی نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ اُمور شہزاد اکبر نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے نواز شریف کی حوالگی سے متعلق ضروری قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر محمد نفیس زکریا نے برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی ضمانت کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ لہذٰا اب وہ ایک مفرور مجرم ہیں۔
حکومتی خط میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں، لہذٰا انہیں وطن واپس بھجوایا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کرپشن مقدمات سے بچنے کے لیے نیا این آر او یعنی حکومت سے ریلیف مانگ رہے ہیں، تاہم مسلم لیگ (ن) ان الزامات کی تردید کر رہی ہے۔
نواز شریف کو واپس لانے سے متعلق حکومتی اعلان پر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ نوازشریف کا فی الحال واپس آنے کا اس وقت تک کوئی ارادہ نہیں جب تک انہیں حکومت کے جانے کا یقین نہ ہو۔
اُن کے بقول اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں حکومت کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکومت جاتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی کوئی تحریک چلانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت یہ تاثر نہیں دینا چاہتی کہ اسے نواز شریف کی وطن واپسی سے دلچسپی نہیں۔ لہذٰا برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے مسلم لیگ (ن) کی نیب آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کو این آر او کا نام دے کر تمام دستاویزات ٹوئٹر پر شیئر کردیں۔
مسلم لیگ (ن) نے شبلی فراز کے اس اقدام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اگر حکومت کا رویہ ایسا ہی رہا تو وہ آئندہ قانون سازی میں حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔
'محکمہ زراعت' ایک بار پھر زیرِ بحث
شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کو بیرون ملک بھیجے جانے پر سوال کے جواب میں کہا کہ اس پر 'محکمہ زراعت' سے جواب لیا جائے۔
محکمہ زراعت کی اصطلاح سب سے پہلے اس وقت سامنے آئی جب 2018 کے انتخابات سے قبل ملتان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر اقبال سراج نے حساس اداروں پر تشدد کا نشانہ بنانے اور پارٹی تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا۔
تاہم اگلے ہی روز انہوں نے کہا کہ ان پر تشدد محکمہ زراعت کے افراد نے کیا تھا، اس واقعے کے بعد ہی محکمہ زراعت کی اصطلاح مشہور ہو گئی اور جب بھی حساس اداروں کا تذکرہ آتا ہے تو یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے بھی محکمہ زراعت کا نام لیا اور کہا کہ نواز شریف ملک سے باہر کیسے گئے اس بارے میں محکمہ زراعت سے پوچھا جائے لیکن اس بارے میں سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کا ایک طوفان دیکھنے میں آیا جس کے بعد انہوں نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں سے معذرت کر لی۔
حکمران جماعت کی حلیف جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی نظر میں نوازشریف کو لانا حکومت کی خواہش ہے لیکن ان کو واپس لانا آسان نہیں ہو گا۔
نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے لیگی رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نواشریف لندن میں علاج کی غرض سے موجود ہیں اور جب تک ان کا علاج نہیں ہوجاتا ان کو پاکستان نہیں لایا جا سکتا۔
چند روز قبل اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ "میرا نہیں خیال کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی آپشن ہے کہ ان کا علاج ادھورا چھوڑ کر انہیں لایا جاسکے۔ وہ عدالت کی اجازت سے گئے ہیں اور عدالت نے کہا تھا کہ جب ان کے معالجین کہیں کہ وہ صحت مند ہیں تو وہ واپس آ جائیں۔"
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں دسمبر 2018 میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ سال عدالت نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دی تھی جس کے بعد نواز شریف گزشتہ سال نومبر میں لندن روانہ ہو گئے تھے۔