مسلم لیگ نون کے رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن شہباز شریف کی نیب کی جانب سے گرفتاری اور سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد اپوزیشن نے ایک بار پھر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن کو دبانے اور بقول ان کے ایک کامیاب آل پارٹیز کانفرنس سے خوفزدہ ہو کر نیب کو استعمال کیا جارہا ہے۔
تاہم نیب کے ایک سابق عہدیدار اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ نیب پنجاب کے سابق سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیر فاروق حمید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ نیب کے پاس گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں اور اپوزیشن کے یہ رہنما اپنی جان بچانے کے لئے شور کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے حکومت پر بھی یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ابھی تک نیب کے ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے کہا تھا 120 مزید ججوں کو نیب کی عدالتوں میں متعین کیا جائے تاکہ تیزی سے مقدمات چلا کر فیصلے کئے جا سکیں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن بیرسٹر علی ظفر نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کا کام مقدمات نیب کو بھیجنا ہے۔ آگے مزید کارروائی نیب کی ذمہ داری ہے۔
مزید ججوں کی تقرری کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہ اتنی بڑی تعداد میں ججوں کی تقرری کے لئے بہت زیادہ مالی وسائل درکار ہیں، تاہم انہوں نے کہا حکومت کچھ جج مقرر کرنا چاہتی ہے لیکن وہ اس میں تاخیر کا سبب نہ بتا سکے۔
حکومت کا اور کوئی متعلقہ عہدیدار باوجود کوشش کے معاملے پر وضاحت کے لیے دستیاب نہیں ہو سکا۔
سینٹ میں حزب اختلاف کے رہنما اور مسلم لیگ نون کے رکن مشاہداللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہیں کوئی ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہوتی تو ضمانتیں نہ ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بقول ان کے تمام ادارے اپنے حلف اور حدود کے مطابق کام کریں تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔
مزید تفصیلات اس آڈیو رپورٹ میں۔۔۔