پاکستان میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر حال ہی میں ایک نئی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ادارے کو سیاسی انتقام اور ملک میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق نیب کے چیئرمین کے پاس لامتناہی اختیارات کے باعث کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ قوانین کے تحت چیئرمین کے پاس ملزمان کو دوران تفتیش 90 روز تک حراست میں رکھنے کے اختیارات موجود ہیں، جو خود کئی قانونی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
یہ رپورٹ پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران نے جاری کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اختیارات کو غیر جمہوری طاقتیں استحصال کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اور یہ عمل آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
رپورٹ میں نیب قوانین کو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق، شخصی آزادی، بلاوجہ حراست یا گرفتاری اور شفاف ٹرائل سے متعلق ایک درجن شقوں سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔
نیب کی حراست اور رویہ 12 جانیں لے چکا ہے
پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق سینیٹر اور رہنما سحر کامران کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف دو سال کے دوران نیب کی حراست میں یا نیب کے رویے اور برتاؤ سے دلبراشتہ افراد کی 12 ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ ہلاکتیں امریکہ کی کیوبا میں قائم جیل گوانتاناموبے میں ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہیں۔
ان میں زیادہ تر ملزمان نیب افسران کی جانب سے ہراساں کیے جانے، ہارٹ اٹیک، صحت کی خرابی اور دیگر وجوہات کی بنا پر جان کی بازی ہار گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک بریگیڈیئر (ر) اسد منیر بھی شامل ہیں جو آٹھ سال سے انکوائری کا سامنا کر رہے تھے۔ انہوں نے خودکشی سے قبل لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ وہ نیب افسران کے تحقیر آمیز رویے سے تنگ آ کر خود کشی پر مجبور ہوئے۔
اسی فہرست میں بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر امین بھی شامل ہیں جن پر اقربا پروری اور بدعنوانی کے الزامات تھے۔ نیب کی زیرِ حراست پہلے اُنہوں نے خود کشی کی کوشش کی۔ تاہم بعد ازاں انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
اسی طرح نندی پور پاور پراجیکٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں پر گرفتار ہونے والے قیصر عباس اور وفاقی وزارتِ تجارت میں اہم عہدے پر فائز چوہدری ارشد مبینہ طور پر نیب افسران کے تشدد سے دوران حراست ہلاک ہوئے۔
اسی فہرست میں سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر میاں جاوید احمد بھی شامل ہیں جن کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئی تصویر منظر عام پر آئی تھی۔ تاہم اب تک کسی ایک بھی ہلاکت پر نیب کی جانب سے کسی ذمہ دار کے خلاف کارروائی کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں۔
'ایک درجن سے زائد افراد کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا'
اسی طرح رپورٹ میں کم از کم ان 12 افراد کی بھی نشاندہی کی گئی جنہیں مبینہ طور پر سیاسی انتقام کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا۔ کیسز بنائے گئے اور ان کے خلاف اب بھی مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
ان میں 64 سالہ سابق صدر آصف علی زرداری کا نام سرفہرست ہے جنہیں نیب نے 10 جون 2019 کو گرفتار کیا تھا، تاہم انہیں دسمبر 2019 میں طبی بنیادوں پر عدالت نے ضمانت پر رہا کیا۔
ان کے علاوہ اس فہرست میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، حمزہ شہباز، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، خورشید احمد شاہ، رکن صوبائی اسمبلی سندھ فریال تالپور اور جنگ میڈیا گروپ کے ایڈیٹر میر شکیل الرحمان بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نیب کی کارروائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ ملزمان کی تضحیک بھی کی جاتی ہے۔ ملزمان کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک رکھا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قومی احتساب بیورو کا ادارہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے دائرے کے بغیر کام کرتا ہے۔
نیب کے بارے میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ، مختلف مقدمات میں سپریم کورٹ، اور انسانی حقوق کے دیگر ادارے بھی اس کی کارروائیوں کو خلاف قانون قرار دے چکے ہیں۔
رپورٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ نیب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر ملک میں سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اور نیب قوانین کا اطلاق صرف حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں پر ہی کیا جا رہا ہے۔
کئی تجزیہ کار اور سیاسی جماعتیں بھی یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے اطلاعات جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کے خلاف حال ہی میں اختیارات کے غلط اور ناجائز استعمال کی خبریں سامنے آنے کے باوجود بھی نیب ان کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آئی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع کیوں نہیں کی گئی۔
ماہرین کی رائے کیا ہے؟
نیب قوانین کے ماہر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہ خاور رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیب قوانین میں تبدیلی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 1997 میں نواز شریف کے دور میں لائے گئے احتساب ایکٹ کی طرح 1999 میں مشرف دور میں متعارف کرائے جانے والے قومی احتساب آرڈیننس کا ایک ہی مقصد تھا کہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قانون کو دیکھا جائے تو اس کا مقصد بڑا اچھا لگتا ہے اور کافی سخت قانون متعارف کرایا گیا تھا۔ شروع میں مختلف جماعتوں اور دیگر لوگوں کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، کارروائی عمل میں لائی گئی مگر جلد ہی اس ادارے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
اُن کے بقول پھر یہ واضح ہونے لگا کہ اس ادارے کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور لوگوں کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
شاہ خاور ایڈوکیٹ کے مطابق اب بھی یہ کارروائیاں آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے بلاامتیاز احتساب کے نام پر جاری ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب سے تحریک انصاف کے اہم رہنما علیم خان کے خلاف کیس بنایا تو گیا مگر ان کے خلاف کیسز، حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے دیگر رہنماؤں کی طرح سست روی کا شکار ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب کو تفتیش کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے جب کہ تفتیش کاروں کی قابلیت کا معیار بھی طے کرنا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ ان میں سے بہت سے تفتیشی افسران تو قانون سے بھی نابلد ہیں۔
قومی احتساب بیورو کا موقف
دوسری جانب وفاقی حکومت اور نیب حکام قومی احتساب بیورو پر غیر منصفانہ اور جانبدارانہ تحقیقات کے الزامات مسترد کرتے ہیں۔
نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران قومی احتساب بیورو نے سیاسی اثر و رسوخ سے بالا تر ہو کر بلا امتیاز احتساب کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کیں۔
ترجمان کے بقول نیب نے دو سال کے دوران 363 ارب روپے سے زائد رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی ہے۔ نیب کو ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی قیادت میں اصلاحات کے ذریعے نیب کو فعال ادارہ بنایا گیا ہے۔
نیب کی کارکردگی اور استعداد کار میں بہتری لائی گئی ہے۔ زیر التوا کیسز کو تیزی سے نمٹایا گیا ہے اور نیب سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ہو کر بلا امتیاز احتساب کے لیے کوشاں ہے۔
ترجمان نیب کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کی صورت میں شکایات کو مکمل کرنے اور بدعنوانی کا ریفرنس دائر کرنے کے لیے 90 روز کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ نیب کو گزشتہ دو سال کے دوران 75 ہزار 268 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 66 ہزار 838 کو نمٹا دیا گیا۔
اُن کے بقول اس عرصے میں 2417 شکایات پر کارروائی کی منظوری دی گئی ہے۔ گزشتہ 2 سال کے دوران نیب نے 1240 انکوائریز کی منظوری دی ہے جب کہ 1220 مکمل کی گئی ہیں۔