رسائی کے لنکس

نیب کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے 'رولز' میں نیا کیا ہے؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے 'قومی احتساب بیورو' (نیب) نے 20 برس بعد پہلی مرتبہ نیب کے اختیارات، انتظامی اور مالی امور سے متعلق رولز جمعرات کو وزارتِ قانون اور سپریم کورٹ میں جمع کرا دیے ہیں۔

نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے قیام کے 20 سال بعد احتساب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 34 کے تحت رولز تیار کیے ہیں جنہیں قومی احتساب بیورو رولز 2020 کا نام دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 23 جولائی 2020 کے حکم نامہ میں قومی احتساب بیورو کو نیب رولز بنانے کا حکم دیا تھا اور نیب قانون کی شق 34 کے تحت رولز بنا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کی اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

38 صفحات پر مشتمل مسودے میں نیب افسروں کی بھرتی، ترقی، مراعات کا معیار بھی مقرر کر دیا گیا ہے، جب کہ شکایات، تصدیق، انکوائری، انوسٹی گیشن اور ریفرنس کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔

چیئرمین نیب کے اختیارات

نیب کی طرف سے تیار کردہ رولز کے رول ون ای میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد بھی اس وقت تک اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے جب تک ان کی جگہ تعینات ہونے والا افسر اپنے عہدے کا چارج نہیں سنبھال لیتا۔

اپوزیشن جماعتیں نیب کی اہلیت پر سوال اُٹھاتی رہی ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں نیب کی اہلیت پر سوال اُٹھاتی رہی ہیں۔

اس سے قبل مدت ملازمت مکمل ہونے پر دونوں افسران کو فوری طور پر چارج چھوڑنا پڑتا تھا۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انکوائری کے دوران کسی مرحلے پر ملزم کی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ کرپشن کے ملزم کی گرفتاری کی گائیڈ لائن چیئرمین نیب دیں گے۔

نئے رولز کے تحت کرپشن کے ریفرنس کی حتمی منظوری چیئرمین نیب دیں گے۔ کون سا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کرنا ہے اور کون سا نہیں، اس کا فیصلہ چیئرمین نیب ہی کریں گے۔

چیئرمین نیب کی منظوری کے ایک ماہ بعد ریفرنس عدالت میں دائر کیا جائے گا۔ مجوزہ مسودے میں بتایا گیا ہے کہ نیب وزارتِ داخلہ کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کسی بھی ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل ) میں ڈالنے کی سفارش کر سکتا ہے۔

مسودے میں بتایا گیا ہے کہ نیب کا ایک مشاورتی ادارہ ایگزیکٹو بورڈ ہو گا جس میں چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین، پراسیکیوٹر جنرل شامل ہوں گے۔ چیئر مین نیب کی منظوری کے بعد کسی کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

چیئرمین نیب کسی بھی انکوائری میں وجوہات بیان کر کے اس کی مدت میں تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ چیئرمین کسی بھی جگہ کو سب جیل یا پولیس اسٹیشن بنانے سے متعلق سیکشن 24 ایف کے تحت ڈکلیئریشن جاری کر سکیں گے۔ چیئرمین نیب کے فیصلے پر نیب اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔

مشتبہ کی گرفتاری کا اختیار

مسودے کے مطابق، نیب کسی بھی مشتبہ جرم کے بارے میں ایکشن لے سکتا ہے، تمام شکایات کو وصول ہونے کے ایک ماہ کے اندر ریجنل بورڈ کے سامنے رکھا جائے گا اور شکایت کی تصدیق کے بعد اس کو انکوائری میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

انکوائری کو چار ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ جب کہ غیر معمولی حالات میں مجاز حکام اس میں ایک ماہ کی توسیع کر سکتے ہیں۔ انکوائری میں مجاز حکام کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر سکتے ہیں لیکن کسی بھی شخص کو قواعد و ضوابط سے ہٹ کر گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی گرفتاری کے حوالے سے چیئرمین نیب گائیڈ لائن دیں گے۔

ماضی میں کچھ کیسز میں بعض افراد کو شکایت کی تصدیق یا انکوائری کے دوران بھی گرفتار کیا گیا جب کہ بعض افراد کو ریفرنس دائر ہو جانے کے بعد بھی گرفتار نہیں کیا گیا جس کے باعث گرفتاری کے احکامات کی شفافیت پر سوال اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

مالی اور پلی بارگین کے اختیارات

کرپشن کیس میں چیئرمین نیب پلی بارگین یا رقوم کی رضاکارانہ واپسی کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔

اگر گرفتار ملزم کی پلی بارگین یا رقوم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست منظور کی جاتی ہے تو مجاز اتھارٹی اس ملزم کی فوری رہائی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔

پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کی تمام تر رقوم کو سیکشن 25 سی اور فنانس ڈویژن کی ہدایات کے مطابق نمٹایا جائے گا۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کے تحت جو بھی رقوم وصول ہوں گی ان کو نیشنل بینک میں چیئر مین نیب کے سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرایا جا ئے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

انتظامی اختیارات

مجوزہ رولز کے مطابق چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب اس وقت تک اپنے عہدو ں پر قائم رہ سکتے ہیں جب تک کہ ان کی جگہ پر کسی دوسرے کو تعینات نہیں کر دیا جاتا۔ مجوزہ رولز میں مزید بتایا گیا ہے کہ نیب میں گریڈ 19 سے اوپر تقرریوں کا اختیار چیئرمین نیب کے پاس ہو گا۔

گریڈ 16 سے 18 تک کی تقرریاں ڈی جی ہیومن ریسورس کرے گا جب کہ گریڈ 1 سے 15 تک کی تقرریاں ڈائریکٹر ہیومن ریسورس کا اختیار ہو گا۔

نیب میں تقرریاں سلیکشن بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہیں، سلیکشن بورڈ گریڈ 21 کے تین نیب افسران پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیب میں کام کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے فرد کے لیے گریڈ 17 کے افسر کی جانب سے کریکٹر سرٹیفکیٹ ضروری قرار دے دیا گیا۔

نیب کے مجوزہ رولز میں بتایا گیا ہے کہ عوامی مفاد کے تحت مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد افسران کا تبادلہ ایک کیڈر سے دوسرے کیڈر میں بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں گریڈ 17 یا اس سے اوپر تعیناتی کا اختیار فیڈرل پبلک سروس کمشن کے پاس ہے یا پھر وزیراعظم ایگزیکٹو اختیارات کے تحت کوئی تعیناتی کر سکتے ہیں۔

لیکن گریڈ 19 سے اوپر کی تعیناتی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا تھا لیکن نئے رولز میں یہ اختیار ایک بار پھر چیئرمین نیب کے پاس ہی رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں گریڈ 20 اور 21 میں تعیناتیاں ایگزیکٹو کے احکامات پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے ہوتی ہیں، لیکن ان رولز کے منظور ہونے کی صورت میں نیب پہلا سول ادارہ ہو گا جہاں ترقیاں اور تعیناتیاں ادارے کے سربراہ کی مرضی سے ہوں گی۔

گریڈ 16 سے 18 تک ہیومن ریسورس کے ڈائریکٹر کو متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز کی مشاورت سے تعیناتی کا اختیار دیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی نیب قانون میں مجوزہ ترامیم

حزب اختلاف اور حکومت اگرچہ دونوں ہی نیب قوانین میں تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے اب تک ایک دوسرے کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر مکمل اتفاق نہیں ہو سکا۔

حزب اختلاف نے ترمیم کی تجویز دی کہ اگر چیئرمین نیب پلی بارگین سے انکار کر دیں تو کوئی بھی سرکاری عہدے دار یا عوامی عہدہ رکھنے والا شخص اس حوالے سے عدالت سے رُجوع کرنے کا مجاز ہو گا۔

اپوزیشن کی یہ بھی تجویز تھی کہ جرم کے ارتکاب یا پلی بارگین کے تحت رقم کی منتقلی کو پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد نیب مبینہ جرم کی تحقیقات، تفتیش یا ریفرنس دائر نہیں کرے گا۔

یہ بھی تجویز دی گئی کہ ایسی شکایت جو نامعلوم یا فرضی نام سے کی گئی ہو۔ جس میں عوام کا پیسہ شامل نہ ہو۔ جس میں شامل رقم ایک ارب روپے سے کم ہو، اس پر نیب کوئی ایکشن نہیں لے گا۔

مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون کے تحت عوامی عہدے دار کی نااہلی 10 کی بجائے پانچ سال کی جائے۔ جرم ثابت ہونے پر اس کی نا اہلی 10 کی بجائے پانچ سال کے لیے ہو گی جب کہ عوامی عہدے دار سزا کے بعد اپیل کے فیصلے تک عہدے پر برقرار رہے گا۔

اپوزیشن کی تجویز ہے کہ ٹیکس ڈیوٹیوں اور محصولات کے معاملات نیب کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔ نان فائلر شوہر یا بیوی اور 18 سال سے کم عمر بچے زیر کفالت تصور ہوں گے۔

اپوزیشن کی ترمیم کے مطابق پلی بارگین کرنے پر بھی نا اہلی پانچ سال ہو گی جب کہ نیب کسی گمنام شکایت پر کارروائی نہیں کرے گا اور نیب کسی اشتہاری کے خلاف غیر موجودگی میں کارروائی نہیں کرے گا۔

اپوزیشن کی تجویز میں کہا گیا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الفاظ کو حذف کیا جائے گا اور اثاثے کی مالیت کا تعین اس کی خریداری کے وقت سے ہو گا۔ نیب انکوائری کو چھ ماہ میں مکمل کرے گا اور عدالت 30 دن کی بجائے چھ ماہ میں فیصلہ کرے گی۔

نیب متنازع کیوں؟

نیب آرڈیننس سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں احتساب ایکٹ مجریہ 1997ء کو ختم کر کے بنایا گیا تھا جو پہلے دن سے ہی متنازع تصور کیا جاتا ہے۔

حزب اخلاف کی نظر میں یہ قانون سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ حکمران جماعت کا موقف ہے کہ نیب کے معاملات سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

موجودہ دورِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن میں نیب قانون میں ترامیم پر کئی اجلاس ہو چکے ہیں، لیکن اب تک کوئی نتیجہ نہیں ہوا۔نکلا۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ بھی کئی مقدمات میں نیب کی اہلیت پر سوال اٹھا چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG