رسائی کے لنکس

نواز شریف نے پارٹی ارکان کو عسکری قیادت یا اس کے نمائںدوں سے ملنے سے روک دیا


پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اُن کی جماعت کا کوئی بھی فرد انفرادی یا پارٹی کی سطح پر فوجی قیادت یا متعلقہ ایجنسیوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔

جمعرات کو اپنی ٹوئٹ میں نواز شریف نے کہا کہ اگر قومی دفاع یا آئینی تقاضوں کے لیے ضروری ہوا تو پارٹی قیادت کی رضا مندی کے بعد یہ ملاقات اعلانیہ ہو گی۔

نواز شریف نے کہا کہ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی ہیں اور بعض کی تشہیر کر کے انہیں اپنی مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ اب یہ کھیل بند ہونا چاہیے۔ آج میں اپنی جماعت کو ہدایات جاری کر رہا ہوں کہ آئینِ پاکستان کے تقاضوں اور خود مسلح افواج کو اپنے حلف کی پاسداری یاد کرانے کے لیے آئندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن، انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں سیاسی قائدین کی عسکری قیادت کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی نئی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ بدھ کو مریم نواز کی طرف سے نواز شریف کے کسی نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبروں کی تردید کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان نے سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں حزبِ اختلاف کے پارلیمانی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبریں اِن دنوں موضوعِ بحث تھیں کہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے آرمی چیف سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔

نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی' نیوز کے اینکر ارشد شریف کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ محمد زبیر کی آرمی چیف کے ساتھ پہلی ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات سات ستمبر کو ہوئی۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق آرمی چیف سے دونوں ملاقاتیں محمد زبیر کی درخواست پر ہوئیں اور یہ ملاقاتیں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز سے متعلق تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات میں خفیہ ادارے (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

میجر جنرل بابر افتخار کے بقول محمد زبیر سے ملاقات کے دوران آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قانونی مسائل عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے۔ ان باتوں سے فوج کو دور رکھا جائے۔

محمد زبیر کیا کہتے ہیں؟؟

پاکستانی فوج کے ترجمان کے بیان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر بھی رات گئے تک مختلف چینلز کی اسکرینوں پر ان ملاقاتوں کی تفصیلات بتاتے رہے۔

محمد زبیر نے ان ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا آرمی چیف جنرل باجوہ سے تعلیمی دور سے تعلق ہے اور وہ انہیں 40 سال سے جانتے ہیں۔

محمد زبیر کے مطابق انہوں نے آرمی چیف سے ملاقاتوں کے آغاز میں ہی انہیں صاف بتا دیا تھا کہ وہ نواز شریف، مریم نواز یا پارٹی کے لیے کچھ مانگنے نہیں آئے۔

رہنما (ن) لیگ کا کہنا تھا کہ ان کی آرمی چیف سے کبھی نواز شریف یا مریم نواز کے معاملات پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی نواز شریف یا ان کی صاحبزادی نے اُنہیں فوج کے سربراہ سے ملاقات کا کہا تھا۔

محمد زبیر کا مزید کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا ترجمان فوج کو بات کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔

محمد زبیر نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے متعلق کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے موقع پر اُنہوں نے کہا تھا کہ کیا آپ ریلیف لینے آئے ہیں۔ جس پر میں نے اُنہیں کہا کہ نہ ریلیف لینے آیا اور نہ ہی کسی کے کہنے پر آیا ہوں۔ محمد زبیر کے بقول جنرل بابر افتخار نے سوال کیا تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ جس پر اُنہیں بتا دیا تھا کہ کچھ نہیں چاہتے۔

محمد زبیر کہتے ہیں، "اگر ہم نے معاملات طے کرنا ہوتے تو 2018 سے پہلے ہی کر لیتے۔ ملاقات اور کھانے پر سیاست پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اتنےگھنٹے بیٹھے رہیں گے تو مریم اور نوازشریف پر بھی بات چیت ہو گی۔"

جنرل باجوہ سے ملاقات کا پس منظر بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی اسد عمر کے بیٹے کے ولیمے میں آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تھی، جہاں انہوں نے وزیرِ اعظم، شیخ رشید، پرویز خٹک سمیت سب کے سامنے پوچھا تھا کہ آپ اسلام آباد کب آ رہے ہیں، تو میں نے اُن سے کہا کہ اگلے ہفتے یا اگلے مہینے آؤں گا۔ جس پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پھر ملاقات ہونی چاہیے۔

اُن کے بقول کرونا وائرس کی وجہ سے یہ ملاقات مؤخر ہوتی چلی گئی اور جب ملاقات ہوئی تو انہیں مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور ملاقات میں بحث زیادہ تر معیشت پر تھی۔

مریم نواز کیا کہتی ہیں؟

بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر مریم نواز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کے کسی بھی نمائندے کی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

مریم نواز نے پارلیمانی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے کہا تھا کہ میرے خیال میں نہ تو کسی سیاسی شخصیت کو بلانا چاہیے اور نہ ہی سیاسی شخصیات کو ملنے کے لیے جانا چاہیے۔

شیخ رشید کے دعوے

سیاسی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کی تفصیل عام کرنے والے وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا کہ کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اب اگر جھوٹ بولا گیا تو میں تمام تفصیلات عام کر دوں گا۔

اُن کے بقول اپوزیشن رہنماؤں کی آرمی چیف سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں، جس میں ریلیف مانگا گیا۔ لیکن اب ان ملاقاتوں سے انکار کیا جا رہا ہے۔

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ وہ فیصل آباد میں ایک پریس کانفرنس میں مزید ملاقاتوں کی تفصیلات بتائیں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت کا اِن کیمرہ اجلاس گلگت بلتستان کو صوبے کا آئینی درجہ دینے سے متعلق اتفاق رائے کے لیے بلایا گیا تھا۔ تاہم اس ملاقات کو ایک ایسے وقت پر ظاہر کیا گیا ہے، جب اتوار کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے فوج کے سیاست میں کردار پر اعلانیہ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت حکومتی وزرا میں صرف شیخ رشید احمد ان ملاقاتوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جب کہ دیگر وزرا کو وزیرِ اعظم عمران خان نے کوئی بھی بیان دینے سے منع کر رکھا ہے۔

'شیخ صاحب جس کے نمائندے ہیں وہ اُنہیں چپ کرائیں'

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ اُن کے بقول اس ملاقات کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات پر بریفنگ حاصل کرنا تھا۔

انہوں نے شیخ رشید کی جانب سے ملاقات کے بعض مندرجات میڈیا پر لانے پر تنقید کی اور کہا کہ وہ جس کے نمائندے ہیں اُنہیں چاہیے کہ شیخ صاحب کو چپ کرائیں۔

کراچی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر عسکری حکام سے جو ملاقاتیں ہوتی ہیں، اُنہیں ظاہر نہیں کیا جاتا۔ قومی سلامتی اور خارجہ امور کے معاملے پر بلائے گئے اجلاس کے متعلق غیر ذمہ داری سے بات کی گئی۔

بلاول نے اُس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بحیثیت وزیرِ اعظم وہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اُن کے بقول اگر وزیرِ اعظم مزید اپنا کام نہیں کر سکتے تو مستعفی ہو کر کسی ایسے شخص کو یہ عہدہ دیں جو بہتر انداز سے پاکستان کی خدمت کر سکے۔

XS
SM
MD
LG