پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے دو روز قبل ہونے والے مشترکہ اجلاس کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی کی منظوری دی گئی تھی۔
پاکستان کی فضائی، بحری اور بری فوج کے سربراہان کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی کے عمل کا آغاز قائمہ کمیٹی سے ہونا تھا۔ جمعے کو بری بحری اور فضائیہ ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد مزید کارروائی کے لیے قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔
جمعے کو ہی سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا اور مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانونی بل منظور کیے گئے۔
قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد ان قانونی بلز کی حتمی منظوری کے لیے سینیٹ و قومی اسمبلی کے اجلاس خصوصی طور پر ہفتے کو طلب کیے گئے۔ تاہم اجلاس کا ایجنڈا جاری ہونے کے باوجود دونوں ایوانوں کے اجلاس دو روز کے لیے منسوخ کر دیے گئے۔ اب اجلاس پیر کو ہوں گے۔
پارلیمنٹ میں موجود ذرائع کے مطابق یہ اجلاس ملتوی کرنے کی وجہ مجوزہ قانونی بلز کی منظوری میں قوائد و ضوابط کو مکمل طور پر نہ اپنایا جانا ہے۔
حکومت نے سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس بلوا کر بل پر بحث کروائی لیکن کمیٹی کنوینر جمیل احمد خان نے منظوری کے لیے باضابطہ ووٹنگ نہیں کرائی۔
اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی دفاع کمیٹی کے چیئرمین امجد نیازی کی غیر موجودگی پر جمیل احمد خان سے اجلاس کی صدارت کرائی گئی تاہم جمیل احمد خان کو قواعد کے تحت عبوری چیئرمین نہیں بنایا گیا تھا۔
جمیل احمد خان ایوی ایشن کے پارلیمانی سیکریٹری ہیں اور قواعد کے مطابق پارلیمانی سیکریٹری قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔
سیکریٹری قومی اسمبلی کی جانب سے قواعد و ضوابط کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات کے بعد ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی دفاع کا اجلاس پیر کو دوبارہ طلب کر لیا گیا ہے۔
پیر کو دوبارہ طلب کیے گئے اجلاس کا نوٹیفکیشن اور ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے جس میں آرمی، ایئر فورس اور نیوی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر غور اور اس کی منظوری شامل ہے۔
اس سے قبل حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ مجوزہ قانونی بل سینیٹ میں پیش نہیں کیے گئے لہذا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے اس کی منظوری نہیں لی جا سکتی۔
حزب اختلاف کے اعتراضات پر حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھجوانے پر رضامندی ظاہر کی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حکومتی سمری پر سپریم کورٹ نے قانونی اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس معاملے پر چھ ماہ میں قانون سازی کا حکم دیا تھا۔
پیر کو ہونے والے اجلاس کی کارروائی کا ایجنڈا بھی جاری کیا جا چکاہے تاہم اس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل شامل نہیں ہے۔
آرمی ایکٹ متفہ طور پر منظور ہو سکے گا؟
حکومت کی کوشش ہے کہ افواج کے سربراہان سے متعلق قانون سازی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر منظور کرایا جائے جس کا اظہار متعدد وفاقی وزرا کر چکے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ہفتے کو ملتوی کیے گئے اجلاس کی ایک وجہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے متعلق تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا اور اس حوالے سے چھوٹی جماعتوں کے تحفظات دور کرنا بھی شامل تھا۔
اگرچہ پارلیمنٹ کی تمام بڑی جماعتیں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کا اظہار کر چکی ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔
نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی نے اس بل کی حمایت نہ کرنے یا مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ان سے حمایت حاصل کرنے کے لیے اتوار کو حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچے۔
اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کی جماعت اس بل کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے پر برقرار ہے البتہ مخالفت میں ووٹ دینے یا غیر جانبدار رہنے پر غور کر رہے ہیں۔