پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثںا اللہ نے کہا ہے کہ نواز شریف نے 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے خلائی مخلوق کا جو نعرہ لگایا تھا اس سے مراد آرمی چیف یا فوج کا ادارہ نہیں تھا۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مسلم لیگ کی قیادت نے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے آرمی چیف یا کسی ادارے کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ مجموعی طور پر غلطی پر نہیں ہوتا۔ نہ ہی کسی ادارے کو مجموعی طور پر غلط کہا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ خلائی مخلوق نے انتخابات میں مداخلت کی اور الیکشن کو سلیکشن کا عمل بنا دیا۔
خیال رہے کہ عام انتخابات سے قبل سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا۔ نواز شریف نے متعدد بار عوامی جلسوں میں کہا تھا کہ عام انتخابات میں ان کا مقابلہ عمران خان یا آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے جو دیکھائی نہیں دیتی۔
انٹرویو میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جب اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی ایک ادارہ نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سینیٹ کے انتخابات میں ان کی جماعت کے امیدواروں کو پارٹی کی شناخت سے محروم کیا لیکن اگر وہ اس عمل میں تمام عدلیہ کو ملوث کریں گے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بابا رحمتے پورا سال ہمارے اقدامات کو متاثر کرنے کے لیے ریمارکس دیتے تھے وہ فیصلہ نہیں ہوتا تھا لیکن اگلے روز اخبارات کی شہ شرخی بن جاتی تھی تو اس عمل سے عدلیہ کو بطور ادارہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
'آرمی ایکٹ کی غیر مشروط حمایت غلطی تھی'
رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی کی غیر مشروط حمایت غلطی تھی جس پر پارٹی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اہم قانون سازی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کو حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ ساتھ پارلیمانی طور طریقے بروئے کار لانے چاہیے تھے۔
مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں پر جو تنقید ہو رہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی کامیابی ہوئی ہے کہ ووٹ اب خود کہہ رہا ہے کہ مجھے عزت دو۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے ان کی جماعت کے فیصلے پر عوامی تنقید کو وہ خوش آئند سمجھتے ہیں اور مستقبل میں ان کی جماعت اس بات کو مدنظر رکھے گی کہ فیصلوں میں مشاورت کے عمل کو مزید بہتر بنایا جائے۔
ان کے بقول اگر ووٹر باشعور ہو جائے گا، جس کی جھلک افواج کے سربراہان کے حوالے سے قانون سازی میں نظر آئی ہے تو کٹھ پتلیوں کی سلیکشن کی کامیابی کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پارٹی کارکنان اور ووٹرز کی جانب سے آرمی ایکٹ کی حمایت میں ووٹ دینے کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ مبصرین اس فیصلے کو نواز شریف کے سویلین بالادستی کے بیانیے کی نفی قرار دے رہے ہیں۔
'نواز شریف اپنے بیانیے پر قائم ہیں'
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں نے آرمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا تاہم سب نے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے عمل درآمد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے بعض رہنماؤں کو اعتراض تھا کہ جماعت کے پارلیمانی اجلاس میں حمایت کا فیصلہ جلد بازی میں کیوں کیا گیا۔
ان کے بقول اس وجہ سے جماعت میں دھڑے بندی یا تقسیم نہیں پائی جاتی۔
رانا ثناء اللہ کے مطابق نواز شریف اپنے بیانیے پر قائم ہیں اور اس کی مثال نیب میں ان کی آخری پیشی اور مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں لیگی قیادت کی شرکت ہیں۔
مسلم لیگی رہنما نے مزید بتایا کہ چند روز قبل ان کی مریم نواز سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ان پر نہ تو کوئی پابندی ہے اور نہ ہی وہ کسی خوف میں مبتلا ہیں۔
ان کے بقول مریم نواز اپنے والد نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش رکھتی ہیں اور اس وجہ سے وہ نہیں چاہتیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوں۔
انہوں نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے کسی ڈیل کی باتیں بے بنیاد قرار دیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت آخری وقت تک نواز شریف کو بیرون ملک جانے دینے پر آمادہ نہیں تھی یہاں تک کہ عدالت کی اجازت کے باوجود انہوں نے ضمانتی بانڈ کی شرط عائد کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینا عدالت کا فیصلہ تھا تو کیا یہ کہا جائے کہ ڈیل عدالت کے ساتھ ہوئی۔
ان کے بقول ایسی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کے بیانات کہ نواز شریف بیمار ہیں بھی ڈیل کا حصہ تصور کیے جائیں گے۔
'شہباز شریف محاذ آرائی نہیں مصالحت چاہتے ہیں'
مسلم لیگ کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ جماعت کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اداروں سے محاذ آرائی کی بجائے مصالحت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ جس کا اظہار انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو میثاق معیشت کی پیش کش کرکے بھی کیا تھا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ شہباز شریف کبھی مزاحمتی سیاست کے حامی نہیں رہے اور ان کے بیانات ان کی اسی سوچ کے مطابق ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف، نواز شریف کے علاج کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں اور وہ اس ماہ کے آخر تک وطن واپس آجائیں گے۔
حکومتی وزرا کے بیانات کہ حزب اختلاف کی جماعتیں آرمی ایکٹ کے لیے ضرور ووٹ کریں گی؟ پر بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومتی وزرا چاہتے تھے کہ حزب اختلاف اس قانونی بل کی حمایت نہ کرے تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ قومی معاملات کا احساس صرف حکومتی جماعت تحریک انصاف کو ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کو اپوزیشن جماعتوں نے آغاز سے ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ نہیں بیانا۔
'حکومت ماڈل ٹاؤن مقدمے میں گرفتار کرنا چاہتی تھی'
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت انہیں ماڈل ٹاؤن مقدمے میں گرفتار کرنا چاہتی تھی تاہم جو نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی وہ ہائی کورٹ میں چیلنج ہونے کے باعث حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی اراکین پر مشتمل ایک منحرف گروپ تشکیل دینا چاہتی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں جلد بازی میں ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
مسلم لیگ کے رہنما نے بتایا کہ ان پر ہیروئن اسمگلنگ کے مقدمے میں نہ تو شواہد پیش کیے گئے ہیں اور نہ ہی کوئی آزاد گواہ بنایا گیا ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں آزاد تحقیقات کا حق ملنا چاہیے۔ اسی لیے وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف تمام شواہد اور ویڈیو فوٹیج مقدمے کے ٹرائل سے پہلے پیش کی جائے۔
خیال رہے کہ انسداد منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس نے رانا ثناء اللہ کو جولائی 2019 میں ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔