پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ نے بھی آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
بدھ کو سینیٹ میں اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں نے اگرچہ اس بل کی حمایت کی ہے تاہم بعض ارکان نے اس بل کی مخالفت بھی کی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو کہتے ہیں کہ آج ملک کی تین بڑی جماعتوں نے جمہوریت کو پارلیمنٹ میں دفنا دیا۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں حکمراں جماعت کے سینیٹر ولید اقبال نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1961 ترمیمی بلز پر قائمہ کمیٹی دفاع کی رپورٹس ایوان میں پیش کیں۔
اس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے سروسز ایکٹ ترمیمی بلز کو ایوان میں شق وار منظوری کے لیے پیش کیا جس کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے بلز کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دیا جب کہ ترمیمی بلز کی منظوری کے خلاف جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔
چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کی مذمت
حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی نے اس بل کی مخالف کی۔
نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے کہا کہ آج ملک کی تین بڑی جماعتوں نے جمہوریت کو پارلیمنٹ میں دفنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج چھوٹی جماعتیں جمہوریت جب کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی آمریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم آیک آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع سے تنگ تھے، اب تو باقی سروسز چیف بھی آ گئے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایوان میں احتجاج کے دوران دھرنا دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے رُکن ہیں۔ انہوں نے سات ترامیم تجویز کی تھیں۔ لیکن سینیٹ ایجنڈے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہونے والی قانون سازی میں سقم ہے، یہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کردار سابق فوجی آمر ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ نے ادا کیا وہی آج اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے دہرایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت پر وار کیا ہے، ان جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کر کے اپنے منشور کی خلاف ورزی کی۔
عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان جماعتوں نے اپنے ووٹر اور اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ان کے بقول اب آنے والے کئی سالوں تک 'سول بالادستی' پر بات کرنا مشکل ہو جائے گا۔
عثمان کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ اگر سینیٹ اراکین کو اپنی مرضی سے اظہار رائے کا موقع دیا جاتا تو 90 فی صد ارکان اس بل کی مخالف کرتے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد اب صدرِ پاکستان اس پر دستخط کریں گے۔ جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
حکومتی ردعمل
وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بل کی منظوری پر کہا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر یہ قانون سازی ضروری تھی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارلیمان کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کیس کے دوران ہدایت کی تھی کہ چھ ماہ کے اندر اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔