چین نے پہلی بار چاند پر کپاس اگا نے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ تجربہ چاند پر بھیجی جانے والی حالیہ سائنسی مہم کے دوران کیا گیا۔
بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا کہ پورے چاند نے روش چہرے پر جو کالا دھبہ دکھائی دیتا ہے، وہ اصل میں ایک بڑھیا ہے جو چرغا کات رہی ہے۔ تب ذہن میں یہ سوال ابھرتا تھا کہ بڑھیا کے پاس کاتنے کے لیے آخر کپاس کہاں سے آئی۔
اب کئی عشروں کے بعد چین کے سائنس دانوں نے چاند پر کپاس اگا کر اس سوال کا جواب بھی فراہم کر دیا ہے۔
چین نے اس مہینے کے شروع میں چاند کے تاریک حصے میں اپنا خلائی راکٹ اتارا تھا۔ چاند کے اس حصے کو تاریک اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی گردش کی وجہ سے زمین سے کبھی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن وہاں اندھیرا نہیں ہے۔ وہاں بھی سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہے اور دن کے وقت وہاں کا درجہ حرارت 260 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے جب کہ رات کو منفی 280 ڈگری فارن ہائیٹ تک گر جاتا ہے۔
چاند کا تاریک حصہ نہ صرف یہ کہ زمین سے دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس حصے میں بھیجے جانے والے کسی بھی مشن سے زمینی رابطہ کرنا آسان نہیں ہے۔ چین نے اپنا خلائی راکٹ تاریک حصے پر اتارنے سے پہلے ایک خصوصی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا تھا۔ تاریک حصے پر اترنے والی خلائی گاڑی کے سائنسی آلات اپنی معلومات سیٹلائٹ کو بھیجتے ہیں جو انہیں زمینی مرکز کو منتقل کر دیتا ہے۔
جب چین کے خلائی سائنس دانوں نے چاند کے تاریک حصے پر خلائی گاڑی بھیجنے کا ارادہ کیا تو چین کی چونگ شن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے وہاں حیاتیاتی تجربات کرنے کا فیصلہ کیا جس میں کچھ زمینی فصلوں کو چاند پر اگانا بھی شامل تھا، جہاں درجہ حرارت، موسم اور کش ثقل، کچھ بھی زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یونیورسٹی کی ایڈوانس ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے چاند گاڑی میں بھیجنے کے لیے ایک بہت چھوٹا سا خصوصی کنٹینر تیار کیا جس کا سائز صرف 7 انچ تھا۔
کنٹینر میں مٹی، پانی، ہوا اور بیج ڈالے گئے۔ انہوں نے چاند پر فصل اگانے کے لیے کپاس، آلو اور سرسوں کی ایک مخصوص قسم کے بیجوں کا انتخاب کیا۔
چاند گاڑی ’چانگی فور‘ سے زمینی مرکز پر موصول ہونے والی تازہ تصویروں میں کپاس کے بیچ سے کونپلیں پھوٹتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن ابھی تک آلو اور سرسوں کے بیجوں سے کوئی کونپل نہیں نکلی۔
حیاتیاتی تجربہ کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ ژی جنگ ژن نے کہا ہے کہ چاند کی سطح پر کسی حیاتیاتی نمو کا یہ پہلا تجربہ ہے۔
یونیورسٹی کے ایک اعلان میں بتایا گیا ہے کہ چانگی فور سے موصول ہونے والی تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کے بیج سے کونپلیں کامیابی سے نکل رہی ہیں اور وہ بڑھ رہی ہیں جب کہ دوسرے بیجوں سے ابھی تک کچھ نہیں نکلا۔
چانگی کا نام چین کی ایک دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
چانگی فور پر جرمنی، سویڈن اور چین کے سائنس دانوں کی طرف بھیجے گئے کئی طرح کے آلات نصب کیے گئے ہیں، جن کی مدد سے چاند کے ماحول، تابکاری اور سورج اور چاند سے خارج ہونے والی لہروں کے درمیان تعلق کی پیمائش کی جائے گی۔
چین کے خلائی ادارے نے کہا ہے کہ اس نے چاند پر چار سائنسی مشن بھیجنے کا پروگرام تیار کر کیا ہے۔ چاند کا اگلا مشن اس سال کے آخر میں بھیجا جائے گا۔ اس مشن کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ چاند کی سطح کے نمونے زمین پر واپس لائے گا۔ تاہم نئے حیاتیاتی تجربات کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہا گیا۔