یہ پہلا موقع ہے کہ سائنس دانوں نے چاند کی سطح پر برف کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ چاند کے ویرانوں میں برف کی موجودگی کو خلائی ماہرین ایک اچھی خبر قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے چاند پر انسان کو اپنا وجود قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔
گزشتہ کئی برسوں سے سائنس دان یہ کہتے رہے ہیں کہ چاند پر برف کی موجودگی کے اشارے اور علامتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے وہ ثبوت کے طور پر دوسرے عوامل، مثلاً چاند کی سطح سے خلاف معمول عکس کا ظاہر ہونا وغیرہ پیش کرتے رہے ہیں۔
ارضیاتی اور فلکیاتی علوم سے متعلق ہوائی انسٹی ٹیوٹ کے شوئی لی، نے، جو اس تحقیق کی مصنف بھی ہیں، خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سائنس دانوں کو چاند کی سطح پر برف کی شکل میں پانی کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر برف چاند کے قطبی علاقوں میں ان آتش فشانوں کے یخ دہانوں میں دیکھی گئی ہے جو مردہ ہو چکے ہیں۔ برف کی موجودگی کا پتا اس وقت چلا جب ایک خلائی جہاز چندرا یان ون نے ان کے اوپر سے پرواز کی۔ یہ خلائی جہاز 2008 میں بھارت کے خلائی ادارے نے چاند کی طرف بھیجا تھا۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چاند کی معدنيات سے متعلق ناسا کے تیار کردہ نقشے کی مدد سے ماہرین نے وہاں تین ایسے کیمیائی نقوش کو شناخت کیا جو چاند کی سطح پر برف کی شکل میں پانی کی موجودگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
لی نے بتایا کہ چاند کے جس قطبی علاقے میں برف کی موجودگی ظاہر ہوئی ہے، وہ انتہائی سرد ہے اور وہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کبھی بھی منفی 250 درجے فارن ہائیٹ سے اوپر نہیں گیا۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہاں برف کی کتنی مقدار موجود ہے، تاہم ناسا کا کہنا ہے کہ وہاں برف کی کافی مقدار ہے۔ اور یہ امکان موجود ہے اس منجمد پانی کو مستقبل میں چاند پر سائنسی تحقیقات یا وہاں رہنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
امریکی خلائی ادارہ آئندہ برسوں میں انسان کو چاند پر پھر سے اتارنے کی تیاری کر رہا ہے۔ چاند پر پہلی بار انسان اپالو مشن کے ذریعے 1960 اور 1970 کے عشرے میں گیا تھا۔
لی کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ چاند پر برف کی مقدار کتنی ہے اور آیا اسے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنا ممکن ہے، اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہاں کے قطبی علاقوں میں ایک روبوٹک گاڑی بھیجی جائے۔
چاند پر برف کی موجودگی کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ جریدے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں پیر کے روز شائع ہوئی ہے۔