پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنا نہیں چاہتے۔ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد منظوری کے بعد بھی حکومت کو اس عمل کا پابند نہیں کرتی۔
اسلام آباد میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو خصوصی بریفنگ میں وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری، وزیرِ داخلہ شیخ رشید اور وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد ایک رکن کی ذاتی رائے ہے جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔
منگل کو حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رکن نے ذاتی حیثیت میں فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے حوالے سے قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی تھی جس پر بحث اور پارلیمان سے منظوری ابھی باقی ہے۔
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے واضح کیا کہ حکومت کا اس معاملے پر مؤقف وہی ہے جو وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں بیان کیا ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد یہ نہیں کہتی کہ سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے۔ بلکہ اس کا متن ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے معاملے پر بحث کی جائے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کیا ہے اور اب حکومت کو مزید کچھ نہیں کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے حوالے سے قرارداد پارلیمان میں ہے جب کہ مقدمات کے حوالے سے مذہبی جماعت کی قیادت عدالتوں سے رجوع کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ٹی ایل پی کا مطالبہ ہے کہ ملک سے فرانس کے سفیر کو نکالا جائے جس پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے باعث ملک کے بعض علاقے متاثر رہے۔ احتجاج کو ختم کرنے کے لیے حکومتی وزرا نے مذہبی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے اور معاہدے میں طے پایا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کے سوال پر وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ امن و امان اور عوام کی حفاظت کے پیشِ نظر ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کیا۔ تاہم اس عمل میں حکومت نے اپنی پوزیشن پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور قانون کے تحت دیا گیا راستہ اپنایا گیا ہے۔
وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ خارجہ پالیسی خالصتاََ حکومت کا اختیار ہے جس پر پارلیمنٹ رائے دے سکتی ہے جسے قبول کرنا یا نہ کرنا حکومت کا استحقاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد کے پارلیمنٹ سے منظوری کی صورت میں فرانس کے سفیر خود بخود ملک بدر نہیں ہو جائیں گے۔ بلکہ اس پر فیصلہ حکومت نے لینا ہے۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے قواعد کے مطابق اس قرارداد پر منظوری سے پہلے بحث کی جائے گی۔ کوئی اور رکن بھی اس حوالے سے نئی قرارداد لا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سفارتی عملے کا کسی ملک سے چلے جانا ایک معمول کا عمل ہے اور فرانس کی پاکستان میں اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کو زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا جانا چاہیے۔
وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ کالعدم تحریک لبیک (ٹی ایل پی) پر پابندی برقرار ہے تاہم وہ اس معاملے پر وزارتِ داخلہ کو نظرِ ثانی کی درخواست دے سکتے ہیں جس پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کی مرکزی قیادت اور ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث کارکنوں کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے۔ البتہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے قانون کے تحت گرفتار 669 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ کئی روز تک جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار ہلاک جب کہ 800 اہلکار زخمی ہوئے۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کے آٹھ کارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
شیخ رشید نے بتایا کہ انہوں نے وزیرِ مذہبی امور نور الحق قادری کے ہمراہ ٹی ایل پی کی مجلس شوریٰ سے مذاکرات کیے جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور دھرنے ختم کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مذاکرات کا راستہ اشتعال انگیزی سے بچنے کے لیے اپنایا کیوں کہ امن و امان کا خراب نہ ہونا عوام کے مفاد میں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شیخ رشید نے کہا کہ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد ابھی منظوری کے عمل میں ہے اور ضروری نہیں ہے اس پر رائے شماری ہو۔ بلکہ اسپیکر اسے خارجہ امور کی کمیٹی کو بھی بھیج سکتے ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے فرانس کے سفارتی عملے کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ امن و امان کے معاملات مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں۔
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاملات میں بگاڑ مذہبی جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے باعث نہیں پیدا ہوا۔ بلکہ مذاکرات میں تعطل ان کی گرفتاری کی وجہ بنا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی مذاکرات کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ کے پیغامات جاری کر رہی تھی اور حکومت وفاقی دارالحکومت میں ہجوم کا جمع ہونا برداشت نہیں کر سکتی تھی جس بنا پر رہنماؤں کی گرفتاری پر مجبور ہوئے۔