پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیرِ قانون راجہ محمد بشارت نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی سے ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی جتھا حکومت کو ملکی مفاد کے خلاف فیصلے پر مجبور نہیں کر سکتا.
پنجاب کے وزیرِ قانون راجہ محمد بشارت نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں مزید بتایا کہ ٹی ایل پی سے پاکستان کو درپیش خطرات کا مسئلہ کافی دن سے چل رہا تھا۔ لیکن گزشتہ چند دِنوں میں جو واقعات ہوئے اُن کی نوعیت مختلف تھی۔ ان میں ایسے واقعات تھے جن میں براہِ راست ریاست کو چیلنج کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار پانچ دِن کے دوران جس طرح سڑکیں، شاہراہیں، موٹرویز، جی ٹی روڈ اور اسپتالوں کے راستے بند کیے گئے۔ اِس کی مثال پہلے کہیں نہیں ملتی۔
اُنہوں نے کہا کہ اِس جماعت کا رویہ گفت و شنید کرنے والا نہیں تھا۔ یہ چاہتے ہیں کہ جو فیصلہ اِن کے چار پانچ لوگ بیٹھ کر لیں اُسے لوگوں اور حکومت پر مسلط کر دیا جائے ۔
صوبائی وزیرِ قانون راجہ بشارت کی رائے میں سیاسی لوگوں کی سوچ بھی سیاسی ہوتی ہے۔ سیاست میں بیٹھ کر اپنا نقطہء نظر بتایا اور منوایا جاتا ہے۔ اِسی طرح اختلاف کے باوجود دوسرے کی بات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالیں گے۔ تو بین الاقوامی سطح پر اُس کے کیا نتائج ہوں گے۔ پاکستان پر ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ کی تلوار پہلے ہی لٹک رہی ہے۔ پاکستان ابھی تک وہاں سے کلیئر نہیں ہوا۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے نکلنے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو کر رہا ہے۔
وزیرِِ قانون پنجاب نے کہا کہ ایک ذمہ دار جماعت اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے تحریک لبیک پاکستان کو چاہیے تھا کہ ایسی سوچ رکھتے جس سے پاکستان کے مفاد کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ٹی ایل پی کے نعرے پر کوئی مسلمان اعتراض نہیں کر سکتا لیکن اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ اُس نعرے کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
وزیرِِ قانون پنجاب نے بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ وفاقی حکومت کے مذاکرات ہوتے رہے وہ اُن کا حصہ تھے۔ اُن کے مطابق اُنہوں نے کسی حکومت کو نہیں دیکھا کہ اتنا نرم رویہ رکھ کر کسی کے ساتھ مذاکرت کیے گئے ہوں۔ لیکن ہٹ دھرمی سے صورتِ حال بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں وفاقی اور پنجاب حکومت نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کیا گیا جب حکومت کے پاس کوئی اور دوسرا راستہ نہیں تھا۔
راجہ بشارت کے بقول مظاہرین سے سڑکیں خالی کرانے میں پولیس نے جس تندہی سے کام کیا اِس کی مثال بھی کم ہی ملتی ہے۔
وزیرِِ قانون پنجاب کے بقول تحریک لبیک کے خلاف آپریشن کے دوران پولیس کے دو اہلکار ہلاک ہوئے۔ جبکہ اِسی آپریشن میں سیکڑوں اہلکار زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں ایس ایس پی سطح کے افسران سے لے کر کانسٹیبل تک کے اہلکار شامل ہیں۔
ٹی ایل پی پر پابندی کے حوالے سے راجہ بشارت نے مزید کہا کہ اِس فیصلے سے کم از کم آئندہ کے لیے ایک بات ثابت ہو جائے گی کہ کوئی بھی ایک گروہ یا جتھا حکومت کو کسی بھی ایسی بات کے لیے مجبور نہیں کر سکتا جو ملک کے وسیع تر مفاد کے خلاف ہو۔
جماعت ’کالعدم‘ ہونے کے نتائج
وزیرِ قانون پنجاب نے بتایا کہ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ٹی ایل پی کے عہدیدار زمینوں کی خرید و فروخت کر سکیں گے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹس استعمال کر سکیں گے۔
اِس کے ساتھ کالعدم جماعت کے عہدیداروں کو جاری اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کیے جائیں گے۔ اِس کے علاوہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک کر دیے جائیں گے۔
وزیرِ قانون کے بقول اِن کے لوگ فورتھ شیڈول میں چلے جائیں گے۔ یہ سیاسی سرگرمیاں اور اجتماعات نہیں کر سکیں گے۔ اِن کے ادارے سرکاری تحویل میں آ جایئں گے۔ ذرائع ابلاغ پر اِن کی خبر نشر نہیں ہو سکے گی اور اِن کے اکاونٹس منجمند کر دیے جائیں گے۔
راجہ بشارت نے کہا تحریک لبیک کی قیادت کو اداراک ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان کے قوانین کو نہ مانا تو یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے ایک نیک مقصد کے لیے بننے والی جماعت اپنی قیادت کی نااہلی اور غلط فیصلوں کے باعث کسی اور طرف چل نکلی۔
اُنہوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک کے بڑی تعداد میں کارکن گرفتار ہیں جن کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیرِِ قانون پنجاب نے کہا کہ ٹی ایل پی کے لوگوں کی ہلاکتیں جب تک رپورٹ نہیں ہوتیں ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ نے وزیرِِ قانون پنجاب راجہ بشارت کے انٹرویو پر تحریک لبیک پاکستان سے مؤقف لینا چاہا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں پر تشدد احتجاج اور نظامِ زندگی مفلوج کرنے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری دی تھی۔
تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے کی تھی۔
سعد رضوی کا کارکنان کو احتجاج ختم کرنے کا خط
تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد حسین رضوی نے گزشتہ شام اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ تمام کارکن پر امن طور پر گھروں کو واپس چلے جائیں۔
خط میں انہوں نے ہدایت کی تھی کہ قانون نافذ کرنے والےاداروں سے تعاون کیا جائے۔ احتجاجی جلسے ختم اور بند سڑکیں فوری طور پر کھولی جائیں۔
اُن کا خط وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ سعد رضوی اپنی شوریٰ ممبران اور کارکنوں سے مخاطب ہو کر یہ اپیل کرتے ہیں کہ ملکی مفاد اور عوام الناس کی خاطر کوئی غیر قانونی قدم نہ اٹھایا جائے۔