ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی دریافت سے کچھ اہم سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ کیا وہ وہاں چھپا ہوا تھا یا پاکستانی فوج یا انٹیلی جنس کے کچھ لوگوں نے اسے وہاں چھپا رکھا تھا؟ ریاست میسوری کی ڈیموکریٹک سینیٹر Claire McCaskill کہتی ہیں کہ یہ سوال اب بھی جوا ب طلب ہے ۔ یا تو پاکستانی جانتے تھے یا وہ بالکل نا اہل تھے۔ سچ کیا ہے، ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ میں پاکستان سیکورٹی ریسرچ کے ڈائریکٹر شان گریگوری کہتے ہیں کہ یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ آئی ایس آئی کو پتہ نہیں تھا کہ بن لادن وہاں موجود ہے۔’’کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ساڑھے چھ فٹ کا یہ آدمی امریکہ سے اور آئی ایس آئی سے دس برس تک بچا رہا، اگر ہم اس بات کا یقین کر لیں کہ وہ اس کی تلاش میں تھے۔ میرے خیال میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔‘‘
آئی ایس آئی پر بار بار یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ بعض گروپوں کو، خاص طور سے افغان طالبان اور لشکرِ طیبہ جیسے کشمیری علیحدگی پسند گروپوں کو مدد دیتی رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا اس الزام کی تردید کی ہے۔ تا ہم، آسٹریلیا کے ریٹائرڈ فوجی افسر برائن کلوفلی جو اسلام آباد میں ملٹری اتاشی کے عہدے پر کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی انٹیلی جنس کے مقاصد کے لیے انتہا پسند گروپوں سے رابطہ قائم رکھتی ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے انہیں بتایا تھا کہ ہم ان لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں تا کہ ہمیں معلوم رہے کہ وہ کہاں ہیں۔ اگر ہم ان سے بات نہ کریں، تو وہ انڈر گراؤنڈ چلے جائیں گے، اور ہمیں کچھ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کہاں ہیں۔
لیکن اگر آئی ایس آئی بعض گروپوں کی مدد کر رہی تھی، تو بھی خیال یہی تھا کہ وہ ایسے شخص کی حفاظت نہیں کرے گی جو ساری دنیا کو مطلوب تھا۔ لیکن شان گریگوری کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن، پیدائش کے لحاظ سے سعودی ہے، اور سعودی عرب میں اس کے بہت طاقتور دوست ہیں۔ سعودی بعض مقاصد کے لیے پاکستانیوں کو بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں۔ مثلاً ریمنڈ ڈیوس کی جان بچانے کے لیے پیسہ سعودیوں نے ادا کیا تھا۔ میرے خیال میں سعودی عرب میں بعض اہم لوگ بن لادن کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
عام طور سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ بن لادن پاکستان کے قبائلی علاقے میں کسی دور دراز مقام پر چھپا ہوا ہے۔ یو ایس آرمی وار کالج کے لیری گُڈسن کہتے ہیں کہ وہ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ بن لادن چھپا ہوا تھا یا اسے ایبٹ آباد میں چھپایا گیا تھا۔ لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ امریکی ڈرونز چپے چپے کا کھوج لگا رہے تھے، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ القاعدہ کا لیڈر ایبٹ آباد میں کیوں تھا۔’’وہ چھپا ہوا تھا یا کسی نے اسے چھپا کر رکھا تھا، میں یہ ضرور کہوں گا کہ ایبٹ آباد نے اسے سرحد سے دور رکھا جہاں بغیر پائلٹ والے جہاز، یعنی ڈرونز اسے آسانی سے نشانہ بنا سکتے تھے ۔ جس کسی نے بھی اسے وہاں رکھا تھا، وہ اس پر نظر رکھ سکتا تھا۔‘‘
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ اس علاقے میں اتنے بڑے کمپاؤنڈ کی تعمیر سے کچھ شبہ یا تجسس ضرور پیدا ہوا ہو گا ، یا ہونا چاہیئے تھا ۔ میرے خیال میں یا تو وہ بن لادن کی تلاش کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے تھے یا وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے تھے۔
لیکن برائن کلوفلی کہتے ہیں کہ اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے کمپاؤنڈ میں کوئی انوکھی چیز نہیں ہے جس پر لوگوں کو تجسس ہو۔ اس علاقے میں فوج کے ریٹائرڈ افسر اور بیشتر خوشحال لوگ رہتے ہیں جو عام لوگوں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں۔’’وہاں سب گھروں میں کمپاؤنڈ ہوتے ہیں۔ اونچی اونچی دیواروں کے اندر چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ایبٹ آباد میں رہنے والے لوگ الگ تھلگ رہتے ہیں۔ ان میں ریٹائرڈ فوجی افسر بھی ہوتے ہیں۔ وہ نہ لوگوں کی مداخلت پسند کرتے ہیں، اور نہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیتے ہیں‘‘
پاکستان کو بن لادن کے اتے پتے کےبارے میں کیا معلوم تھا، اس بارے میں امریکی کانگریس میں سماعتیں ہوں گی۔ کانگریس کے بعض ارکان نے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کو دی جانے والے امداد پر ازسرنو غور کرنا چاہیئے۔