دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن میں اسامہ کی ہلاکت کا واقعہ اگر چہ تاحال سب سے زیادہ موضوع بحث بنا ہواہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کے خلاف ملک میں روایتی احتجاج نظر نہیں آیاجو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ لوگ دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں اورانہیں اسامہ کے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
مبصرین کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن پر لوگوں کو اپنے محافظین سے کچھ شکایت ، کچھ ناراضگی ضرورہے مگر یہ وقتی ہے۔ عوام ہر صورت دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی ملکی خود مختاری بھی اس کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔
حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی ہڑتال یا احتجاج نہ ہو رہا ہو ۔ ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے کہ جب پورا ملک کسی ایک نکتہ پر متفق نظر آئے اور ملک گیر ہڑتال یا احتجاج دیکھنے کو ملے ۔بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی کمی، سی این جی کی کمیابی، بے روزگاری، تنخواہوں میں اضافہ، کرایوں میں کمی یا اضافہ، کسی معاملے یا کسی اہم فیصلے پر رد عمل کے طور پراحتجاج۔غرض کہ کوئی موقع ایسا نہیں ہوتا جب احتجاج نہ ہورہا ہو۔
دومئی کو اسامہ کی ہلاکت پر بھی بعض حلقوں کا خیال تھا کہ شاید بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آ ئے لیکن عوام کی اکثریت نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا اور اسامہ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج چند مذہبی اور کالعدم جہادی تحریکوں تک ہی محدود رہا ، عام آدمی کی اس احتجاج میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان مظاہرین میں بھی اکثریت ایسے افراد کی تھی جو اسامہ کی ہلاکت کے نہیں بلکہ ایبٹ آباد میں یکطرفہ آپریشن اور اس سے بھی زیادہ پاکستانی فوج پر مشتعل تھے ۔
ماہرین کے مطابق ملک گیر احتجاج نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لوگ دہشت گردی کی وبا سے عاجز آ چکے ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ وہ مزیداپنی سرزمین کو نا حق خون میں ڈوبتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کو ایک خود مختار ریاست کے طور پردیکھنا بھی چاہتے ہیں ۔ وہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی پر اپنی خفیہ ایجنسیوں سے بھی ناراض ہیں ۔
ملکی میڈیا میں ہونے والے مختلف سرویز کے نتائج بھی اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ عوام اس بات پر بھی خفیہ اداروں سے نالاں ہیں کہ اسامہ کیسےایک فوجی چھاؤنی کے قریب پانچ برس تک پرسکون زندگی گزارتارہا ؟
عسکری قیادت بھی عوامی رد عمل کو پہنچانتی ہے اسی سبب اُس نے اِن کیمرہ اجلاس کے ذریعے لوگوں کواعتماد میں بھی لینے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن تاحال عسکری قیادت کی بریفنگ سے مطمئن نظر نہیں آ رہی ۔ اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کے قائدین ایبٹ آباد واقعے پر مسلسل آزاد کمیشن کے قیام پر زور دے رہے ہیں جبکہ حکومت اس حوالے سے کچھ زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آ تی جس کی واضح مثال یہ ہے کہ تین روزقبل حکومت اور اپوزیشن میں طےپایا تھا کہ سات روز کے اندروزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ایبٹ آباد واقعہ پر آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے گا تاہم وزیر اعظم منگل کو چین کے چارروزہ دورے پر روانہ ہو گئے اور جب وہ واپس آئیں گے تو کمیشن تشکیل دینے کی تاریخ گزر جائے گی ۔
ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں صرف اور صرف ایبٹ آباد آپریشن اور اس سے پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو واضح کرنے سے ہی عوام اور اپوزیشن کو مطمئن کیا جا سکتا ہے ۔القاعدہ کے سربراہ یا کسی بھی رکن کی گرفتاری یا ہلاکت سے عوام کوکو ئی غرض نہیں۔