اسامہ بن لادن کی موت کے بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ ان کے بعد القاعدہ کی سربراہی کون سنبھالے گا۔ اس حوالے سے جس فرد کا سب سے زیادہ نام لیا جارہا ہے وہ مصری نژاد ایمن الظواہری ہیں جوتنظیم کے غیر رسمی ترجمان ہونے کے علاوہ بن لادن کے بھی سب سے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں۔
خواد الظواہری بھی ماضی میں کئی بار القاعدہ سربراہ کے ساتھ اپنی قربت کے حوالے دیتے رہے ہیں۔ رواں برس فروری میں جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں الزواہری نے کہا تھا کہ انہیں اسامہ بن لادن نے یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ ’مجاہدین کو اسلامی شرعی قوانین کے حوالے سے رہنمائی فراہم کریں‘۔
القاعدہ نے امریکہ کے خلاف اب تک جتنے بھی سخت اور اشتعال انگیز بیانات جاری کیے ہیں ان میں سے بیشتر الظواہری سے ہی منسوب ہیں۔ ماہرین کی اکثریت انہیں القاعدہ کا اصل ’دماغ‘ تصور کرتی ہے اور انہیں اس عالمی تنظیم کی جانب سے کیے گئے چند اہم اور بڑے دہشت گرد حملوں بشمول 9/11 کے واقعات کا منصوبہ ساز قرار دیا جاتا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب اخبار ’الحیات ‘ کے مدیر اور سیاسی تجزیہ کار محمد صالح غالب گمان کے برعکس اسامہ بن لادن کے بجائے ایمن الظواہری کو القاعدہ کا اصل بانی قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول مصر میں اسلام پسندوں کو منظم کرنے کے تجربے کے حامل الظواہری نے القاعدہ کی تنظیم سازی میں بنیادی کردار ادا کیا جبکہ تنظیم کو معاشی اور نظریاتی رہنمائی اسامہ بن لادن سے ملی۔
الظواہری پیشے کے اعتبار سے ایک سرجن ہیں جنہوں نے اسامہ بن لادن کی طرح اپنی آرام دہ زندگی کو ترک کرکے خود کو اسلام کے ایک انتہا پسند رخ کی پرتشدد ترویج کےلیے وقف کردیا تھا۔ القاعدہ کے ان دونوں راہنماؤں کی پہلی ملاقات سوویت فوجوں کے خلاف جہاد کے دوران افغانستان میں ہوئی تھی تاہم اس سے قبل ہی یہ دونوں حضرات شدت پسند نظریات کے اسیر ہوچکے تھے۔
1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ایمن الظواہری کے ہمراہ ایک مصری قیدخانے کی کوٹھری میں ایامِ اسیری گزارنے والے اعصام عبدالماجدکے بقول ایک دہشت گرد رہنما کی شناخت رکھنے والے الزواہری اس وقت شاعرانہ مزاج کے حامل ایک باوقار شخص ہوا کرتے تھے۔
تاہم عبدالماجد کے خیال میں ان کا یہ ظاہری رکھ رکھائو مصنوعی تھا کیونکہ ان کے بقول اپنی طبیعیت کی تمام تر نرمی اور عاجزی کے باوجود الظواہری ایک ایسے سخت مزاج شخص تھے جنہیں ان کے نظریات سے رجوع کرنے پر مجبور کرنا تو دور کی بات، ان کی مخالفت کرنا بھی ایک مشکل امر تھا۔
مسلم تنظیم ’جماعہ اسلامیہ‘ کے ایک سینئر رکن شیخ عبدالمجید کہتے ہیں ان کی جماعت کی جانب سے الظواہری کو کئی بار تشدد ترک کرنے اور اپنے نظریات کے فروغ کیلیے پرامن راستے کے انتخاب کا مشورہ دیا گیا۔
تاہم شیخ عبدالمجید سمجھتے ہیں کہ جب تک ’امریکی تکبر اور اسرائیل کیلیے اس کی حمایت‘ جاری ہے القاعدہ کا وجود بھی برقرا رہے گا کیونکہ ان کے بقول یہ تنظیمیں امریکہ کی ان غلط پالیسیوں کے ردِ عمل میں وجود میں آئی ہیں۔
الظواہری اس وقت کہاں روپوش ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی رائے موجود نہیں۔ ادھر القاعدہ میں بھی اندرونی شکست و ریخت کا عمل جاری ہے اور تنظیم سے علیحدہ ہونےو الے کئی گروپ اور رہنما اپنے اپنے دائرہ اثر میں طاقت کا مرکز بن چکے ہیں۔
تجزیہ کار اس حوالے سے ’القاعدہ اِن عریبین پینی سولا‘ کے انورالاولکی کی مثال پیش کرتے ہیں جن کی کرشماتی اور متحرک شخصیت الظواہری کی قدامت پسند اور نکتہ چیں طبیعیت کے بالکل برعکس ہے۔ شیخ عبدالمجید کا خیال ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب القاعدہ کی قیادت الاولکی جیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی۔
لیکن ان کی رائے میں اس وقت الظواہری بن لادن کی جانشینی کے واحد مقبول امیدوار ہیں۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی کے کچھ ماہرین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا القاعدہ جیسی تنظیم کو کسی مرکزی قیادت کی کوئی خاص ضرورت بھی ہے یا نہیں؟
ان ماہرین کے بقول القاعدہ کسی مرکزی قیادت کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس رائے کا بھی اظہار کیاجارہا ہے کہ بن لادن کی موت کے باوجود ایک طاقتور اور مثالی رہنما کے طور پر القاعدہ پر ان کا اثر ایک طویل عرصے تک برقرار رہے گا۔ خود شیخ عبدالمجید بھی اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔
شیخ کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے قیام کے بعد سے تنظیم میں خاصی تبدیلیاں آچکی ہیں اور اس کی موجودہ حیثیت ایک ایسے 'تکون' کی نہیں رہی جس میں ایک باقاعدہ قیادت تنظیمی معاملات کی نگرانی کر رہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ان کے بقول 'القاعدہ' اب ایک ایسے نظریے کا نام ہے جو ہمارے ارد گرد کے ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے اور جس کی نشوونما امریکی اقدامات کی مرہونِ منت ہے۔
اسی وجہ سے شیخ عبدالمجید یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی موت دنیا بھر میں پھیلے ان کے پیروکاروں کو اپنی کاروائیاں جاری رکھنے کی ایک اور وجہ فراہم کردے گی۔ ان کے بقول ان پیروکاروں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اسامہ کا جانشین کون ہوگا بلکہ ان کے پیشِ نظر صرف اپنے مقاصد کا حصول ہے۔