وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے مفرور رہنما ملا محمد عمر کی پاکستان میں موجودگی اور ہلاکت کی اطلاعات ’’سوچے سمجھے انداز میں پھیلائی جانے والی افواہیں‘‘ ہیں۔
کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ ’’نا ہمارے ہاں نیٹو کا کوئی ایکشن ہوا ہے نا ملا عمر کی ہمیں یہاں کوئی (موجودگی کی اطلاع ہے) لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں طالبان نے اس (خبر) کی تردید کی ہے اور افغان انٹیلی جنس نے بھی کہا ہے کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔“
افغانستان کے ایک نجی ٹی وی ’طلوع‘ نے پیر کو نشر کی گئی اپنی ایک خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ ملا عمر نیٹو فوج کے حملے میں دو روز قبل اُس وقت مارا گیا جب وہ کوئٹہ سے شمالی وزیرستان کی طرف جا رہا تھا۔
طالبان عسکریت پسندوں نے فوری طور پر میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ان اطلاعات کو من گھڑت اور پراپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور کہا کہ ملا عمر زندہ اور افغانستان میں ہی موجود ہے۔
افغانستان کے طلوع ٹی وی پر ملا عمر کی ہلاکت کی خبر افغان انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے نشر کی گئی جس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل طالبان لیڈر کو کوئٹہ سے وزیرستان جانے میں مدد کررہے تھے۔ لیکن مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حمید گل نے ان اطلاعات کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
کابل میں افغان انٹیلی جنس کے ادارے کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی معلومات کے مطابق ملا عمر پاکستان میں ہی مفرور ہے تاہم ترجمان کے بقول طالبان لیڈر کی ہلاکت یا زندہ ہونے کے بارے میں وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔
امریکہ نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔