حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر خان ترین کے ساتھیوں کی جانب سے ارکانِ اسمبلی کو منگل کو دیے جانے والے ایک عشائیے کے دوران الگ سیاسی گروپ بنانے کا اعلان سامنے آیا ہے۔
تاہم جہانگیر ترین نے الگ کوئی گروپ بنانے کی تردید کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے حامی ارکان ان کے خلاف پنجاب حکومت کی مبینہ انتقامی کارروائیوں کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے۔
جہانگیر ترین کی میزبانی میں عشائیے میں شریک رکنِ پنجاب اسمبلی نذیر چوہان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ عشائیے میں قومی و صوبائی کے 31 ارکان نے شرکت کی تھی۔
نذیر چوہان کے مطابق عشائیے میں ہم خیال ارکان اسمبلی نے الگ سیاسی گروپ کو باضابطہ طور پر سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف سے الگ ہونے والے گروپ کا نام ان کے بقول 'جہانگیر ترین ہم خیال گروپ' رکھا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کی جانب سے بذاتِ خود کسی قسم کا الگ سیاسی گروپ بنانے کا اعلان سامنے نہیں آیا۔ بدھ کو لاہور کی بینکنگ عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے پارٹی میں الگ گروپ بنانے کی تردید کی ہے۔
جہانگیر ترین نے واضح کیا کہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور اپنی جماعت میں ہی رہیں گے۔
البتہ رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ 'جہانگیر ترین ہم خیال' ارکان اسمبلی نے جمعے کو پنجاب اسمبلی میں اپنی سیاسی قوت دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
'جہانگیر ترین ہم خیال گروپ' بنانے کے حوالے سے کسی بھی حکومتی عہدیدار اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تا حال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
SEE ALSO: جہانگیر ترین کے عشائیے میں ارکان اسمبلی کی شرکت: کیا پی ٹی آئی حکومت کو کوئی خطرہ ہے؟مذکورہ گروپ کی تشکیل سے قبل گروپ کے بعض ارکان نے گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کر کے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ بعدازاں جہانگیر ترین کے خلاف شوگر انکوائری کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سینئر افسر ڈاکٹر رضوان کو کمیشن کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان کے مطابق ہم خیال گروپ کی جانب سے قومی و پنجاب اسمبلی میں علیحدہ پارلیمانی لیڈر مقرر کیے جائیں گے۔ ان کے بقول قومی اسمبلی کے لیے فیصل آباد سے رکن اسمبلی راجہ ریاض جب کہ پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر نوانی کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
نذیر چوہان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن جہانگیر ترین کے معاملے پر ان کا مؤقف الگ ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت اور جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات اور دوری کی بظاہر وجہ چینی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بنی ہے۔ حکومتی وزرا کی جانب سے کئی بار اشاروں کنایوں میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی جاری رہے گی چاہے اس کا نشانہ حکومت یا تحریک انصاف میں شامل کوئی رکن ہی کیوں نہ بنے۔
چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات
وفاقی حکومتِ نے گزشتہ برس 21 فروری کو ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اچانک اضافے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے کاروباری گروپ کو ہوا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور اس پر سرکاری رعایت (سبسڈی) دینے سے ملک کو چینی کی قلت کا سامنا رہا۔
SEE ALSO: کیا عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان دوریاں ختم ہو سکیں گی؟گزشتہ سال 21 مئی کو چینی بحران پر فرانزک آڈٹ کرنے والی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی پیداوار میں سب سے زیادہ 51 فی صد حصہ رکھنے والے چھ بڑے گروپوں کی تحقیقات کی گئی ہیں جن میں سے جے ڈی ڈبلیو، الائنس ملز اور العربیہ مل کے چینی پر اوور انوائسنگ کرتے ہوئے دو دو کھاتے پائے گئے اور یہی بڑے گروپ چینی کی بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے گزشتہ برس سات جون کو شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
جہانگیر ترین کے خلاف کیس کیا ہے؟
گزشتہ ماہ پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مبینہ مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین نے سرکاری شیئر ہولڈرز کے پیسوں پر مبینہ طور پر غبن کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کی کمپنی 'جے ڈی ڈبلیو' نے دھوکے سے تین ارب 14 کروڑ روپے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ کو منتقل کیے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں شوگر انڈسٹری پر 'گٹھ جوڑ' اور 'سٹے بازی' کے الزامات، معاملہ ہے کیا؟ایف آئی آر کے مطابق فاروقی پلپ ملز جہانگیر ترین کے بیٹے اور قریبی رشتہ داروں کی ملکیت ہے۔
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے لاہور کی سیشن عدالت سے عبوری ضمانتیں حاصل کر رکھی ہیں۔
عدالت میں جہانگیر ترین اور علی ترین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایف آئی اے نے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے درج کیے ہیں۔
ان کے بقول انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔