رسائی کے لنکس

چینی بحران کی تحقیقات نیب سمیت دیگر اداروں کے سپرد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ادوار میں دی جانے والی 29 ارب روپے کی سبسڈی کا معاملہ نیب کو بھیجا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کے ساتھ نیوز کانفرنس کے دوران شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے چینی کمشن کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔ 9 شوگر ملز کے بعد دیگر جو ملز ہیں ان کی بھی تحقیقات ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا فیصلہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور ہو جوابدہی کرنی ہو گی۔ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ لوگوں سے ریکوری ہونی چاہیے۔

کارروائی کے لیے سات سفارشات کی منظوری

شہزاد اکبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے7 اہم سفارشات کی منظوری دی ہے۔ ان کے مطابق شوگر ملوں کو ملنے والی سبسڈی کی تحقیقات نیب کے سپرد کی گئی ہیں۔

انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کی تحقیقات ایف بی آر کرے گا۔

کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات، ایف آئی اے، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمشن کرے گا۔

مبینہ جعلی برآمدات اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کی گئی ہے۔

مسابقتی کمشن، کارٹیلائزیشن کی تحقیقات کرے گا۔

صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات انٹی کرپشن صوبائی محکمے کو دی گئی ہیں۔

جب کہ برآمدات اور قرض معاف کروانے کی چھان بین اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے کی گئی ہیں۔

قیمتوں پر کنٹرول کے لیے سفارشات

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر کی قیمت کو کنٹرول کرنے سے متعلق بھی سفارشات دی ہیں۔ حماد اظہر کی سربراہی میں کمیٹی چینی کی قیمت کم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ 20 سے 25 سال کی سبسڈی کی تحقیقات کیلئے ریفرنس دائر کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔ چینی بحران کے ٹیکس سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو دے رہے ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 1985 سے جنہوں نے چوری کی، نیب ان معاملات کی تحقیقات کرے اور ایف بی آر ریکوریز کرے اور 90 دن میں وفاق کو رپورٹ پیش کرے جب کہ کمشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شوگر انڈسٹری کے لوگ من مانی زیادتیاں کر رہے تھے۔ چینی بحران میں سیاسی لوگ بھی فائدے کے لیے ملوث ہیں۔

چینی باہر بھیجنا بھی اسکینڈل ہے، شہزاد اکبر

معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر کمشن کی رپورٹ میں شواہد ملے ہیں کہ چینی افغانستان ایکسپورٹ کی گئی۔ جو چینی افغانستان گئی اور جو پہنچی اس میں تضاد ہے۔ 15 سے 20 ٹن والے ٹرک پر 80 ٹن کی رسیدیں کٹی ہیں کہ چینی افغانستان جا رہی ہے۔

اس طرح اس کاروبار میں منی لانڈرنگ بھی ہوئی ہے اور مل مالکان نے بلیک منی کو وائٹ کیا۔ چینی افغانستان ایکسپورٹ کے معاملے کی تحقیقات بھی ایف آئی اے کرے گی۔ ایف آئی اے 90 دن میں کیسز عدالتوں میں جمع کرائے گی۔

اپوزیشن ارکان چینی اسکینڈل میں ملوث ہیں، شہزاد اکبر

شہزاد اکبر نے کہا کہ حمزہ شوگر مل میں ایک سال میں 1 ارب سے زائد کا ٹیکس فراڈ سامنے آیا۔ الائنس، العریبیہ مل و دیگر کے ان رپورٹڈ پروکشنز ہے۔

تمام ملوں میں سیلز ٹیکس فراڈ ،انکم ٹیکس اور بے نامی ٹرانزیکشنز کے شواہد ملے ہیں جب کہ شاہد خاقان عباسی کو 20 ارب روپے کی سبسڈی کا حساب دینا پڑے گا۔ جب سے شوگر کی رپورٹ آئی ہے۔ شاہدخاقان عباسی نے مدعا اپنے اوپر لے لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 90 کی دہائی میں ایک بڑے خاندان نے بھارت کو چینی دی تھی۔ کوئی شخص کتنا ہی طاقتور ہو یا اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، اسے جواب دینا ہو گا۔ یہی تحریک انصاف کا منشور اور مینڈیٹ ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ اسکینڈل کے نتائج جلد آئیں، لیکن ہم قانون کے تابع ہیں۔ نیب آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ نیب سے درخواست کر رہے ہیں کہ جب سے نیب قانون کا اطلاق ہوتا ہے اس کی پوری تحقیق کریں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر انڈسٹری کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا۔ اس میں موجود تمام ہی اہم اور بڑے افراد کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہو رہے تھے اور اس کا نتیجہ غریب عوام کی جیب سے پیسہ نکالنا تھا، چاہے وہ قیمت بڑھا کر ہو، ٹیکس چوری سے ہو یا سبسڈی لے کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔ اس ملک میں جتنے مافیا ہیں ایک ایک کر کے سب سے نمٹیں گے۔

چینی گندم بحران ہے کیا؟؟

رواں سال جنوری میں ملک میں اچانک گندم کی کمی کے باعث بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ ملک بھر میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

اس تمام صورت حال کے بعد ملک بھر میں آٹا 45 روپے فی کلو سے ایک دم 70 روپے فی کلو تک پہنچ گیا۔ قیمت میں اس قدر اضافہ کے باوجود بڑے اسٹاکسٹ نے گندم ذخیرہ کر لی، جس کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔

گندم کے ساتھ ساتھ چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی اور 52 روپے کلو ملنے والی چینی کی قیمت 75 سے 80 روپے فی کلو ہو گئی۔

اس تمام بحران میں جہانگیر ترین اور بعض حکومتی شخصیات پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے، جس پر وزیراعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

ایف آئی اے کی چھ رکنی ٹیم نے ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں اس تمام معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمے داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارش پر انکوائری کمشن قائم کر دیا ہے۔

یہ کمشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا ہے اور یہ پہلے ہی اپنا کام شروع کر چکا ہے۔

انکوائری کمشن کی 9 ٹیمیں بحران سے فائدہ اٹھانے والی شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ کر رہی ہیں ان میں جہانگیر ترین کی شوگر ملز بھی شامل ہیں۔

کمشن اپنا کام 40 دن میں مکمل کرے گا، جس کے بعد ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

21 مئی کو شہزاد اکبر نے نیوز کانفرنس میں جہانگیرترین سمیت مختلف سیاست دانوں کے ملوث ہونے سے متعلق بتایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور بغیر تصدیق شدہ پرچیوں پر گنا خریدا۔ کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے۔ 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا۔ شوگر ملز نے2017 اور 2018 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔ 2017 اور 2018 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔

اسی طرح 2018 اور 2019 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا۔ 2019 اور 2020 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا۔ شوگر ملز نے 2018 اور 2019 میں 12 اور 2019 اور 2020 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔ ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں۔ ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے۔

چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی۔ شوگر ملوں نے غیر قانونی طور پر کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا، چینی کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ کر کے 5.2 ارب روپے منافع کمایا گیا۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا رپورٹ نہیں کیا جاتا، جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا۔ پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔ ان شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا۔ شہباز شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں۔ 2017 اور 2018 میں ایک اعشاریہ 3 ارب روپے اضافی کمائے۔ جب کہ 2018 اور 2019 میں انہوں نے 78 کروڑ روپے اضافی کمائے۔ اسی طرح، العربیہ میں بغیر تصدیق شدہ پرچی کا رواج بہت ملا ہے اور اس نے کسانوں کو 40کروڑ روپے کم دیے۔ جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملز کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں۔ شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی۔

اپوزیشن کا ردعمل

شہزاد اکبر کی اس نیوز کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کہ پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمارٹ لاک میں حکومت نے نیب کو ٹارزن بنا دیا۔ پوری قوم اس وقت کورونا کے خطرہ سے دوچار ہے اور حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کرونا کے دوران حکومت نے فساد کا پینڈیمک شروع کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان ملک کے وزیر اعظم بنیں اور چاروں صوبوں کو اکٹھا کر کے قومی بیانیہ بنائیں۔

‎ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ‎طاقتور اے ٹی ایمز کو جہاز میں بھٹا کر، بھگا کر خود احتسابی کا درس دیا جا رہا ہے۔ کمشن رپورٹ نے عمران صاحب اور بزدار صاحب کو گرفتار کرنے کی تاریخ نہیں بتائی۔ ‎اے ٹی ایمز کو بھگا کر عمران صاحب نے انکوائری نیب نیازی گٹھ جوڑ کے حوالے کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‎عمران صاحب طاقتوروں کی تجوریاں بھر کر احتساب کا ڈرامہ نہ کریں۔ ‎چینی بحران میں صرف عمران صاحب ملوث ہیں۔ عوام کی چینی چوری کر کے زمان پارک کا گھر بنا۔ ‎چینی چوروں کو ملک سے بھگا کر چینی چور پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ‎عمران صاحب کی چینی چوری کی وجہ سے عوام اب تک 90 روپے کلو چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ‎عمران صاحب قلت کے باوجود چینی برآمد کیوں کی؟ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟‎ عمران صاحب چینی کی قیمت 52 روپے سے 90 روپے کیوں ہوئی؟

شاید خاقان عباسی کہہ چکے ہیں ان کے اور عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائے اور عوام کے سامنے جواب طلبی ہو۔ لیکن حکومت صرف سیاسی ڈرامہ رچا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG