پاکستان میں چینی کے اسکینڈل کے بعد جس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ میں ردوبدل ہوا, اور پنجاب میں بھی کچھ لوگوں کو فارغ کیا گیا، جس پر جاری تحقیقات کی رپورٹ 25 اپریل کو متوقع ہے۔ اس کے بعد کے منظرنامے پر مختلف حلقوں کی جانب سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔
25 اپریل کو اس اسکینڈل پر کوئی دس شوگر ملوں کے فرانزک آڈٹ کی رپورٹ متوقع ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ممکن ہو گا کہ اگر کوئی کارروائی ہونی ہے تو وہ کس کے خلاف ہو گی اور کن بنیادوں پر ہو گی۔
قومی احتساب بیورو پنجاب کے سابق سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اوّل تو صرف دس شوگر ملوں کا فرانزک آڈٹ کرانا بے معنی بات ہے، جب کہ ملک میں شوگر ملوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے جن ملوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے، ان کے مالکان بجا طور پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صرف وہی کیوں؟ بقیہ ملز کیوں نہیں۔
بریگیڈیئر فاروق حمید کا کہنا تھا فائنل رپورٹ آنے کے بعد مزید کارروائی کے لئے حکومت کے پاس دو ماڈل ہوں گے۔ اوّل یہ کہ ایف آئی اے کی کرپشن کورٹس میں اس معاملے کو لے جایا جائے۔ لیکن کارکردگی کے حوالے سے ان کورٹس کا کوئی اچھا ریکارڈ نہیں ہے۔ بدعنوانیوں کے مقدمات میں ان کی جانب سے سزائیں دینے کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔
دوسرا طریقہ جو بقول ان کے قابل ترجیح ہے، وہ یہ ہے کہ فائنل رپورٹ آنے کے بعد معاملہ قومی احتساب بیورو یا نیب کو دیا جائے اور جے آئی ٹی بنا کر معاملے کو آگے بڑھایا جائے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ نیب کورٹس کی کارکردگی بھی کوئی اچھی نہیں رہی ہے اور پچھلے تین برسوں میں وہ کسی بھی کیس میں کوئی سزا نہیں دلا سکی۔ البتہ جن معاملات میں سپریم کورٹ نے سو مو ٹو لیا، ان میں سے بعض میں کامیابیاں بھی ہوئیں۔ جیسے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معاملے میں ہوا اور اسی ماڈل کے تحت مقدمات چلانے سے انہیں بعض کیسوں میں سزا ہوئی۔ اس لئے اس معاملے میں بھی اسی ماڈل کو آزمایا جانا چاہئیے۔ یعنی سپریم کورٹ کی نگرانی میں مقدمات چلنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ شوگر اسکینڈل پاکستان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے پہلے مشرف دور میں بھی یہ ہو چکا ہے اور مخصوص مفادات رکھنے والوں نے اس دور میں ایک جنرل کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات رکوانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ انہوں کہا کہ ایوب خان کے دور میں بھی اسی نوعیت کے واقعے کی تاریخ ہے۔
تاہم ایک اور قانون دان اور سابق وکیل سرکار ذوالفقار بھٹہ کا خیال ہے کہ جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں، انہوں نے قانون کے تقاضے پورے کر رکھے ہوں گے۔ اور ان کے خلاف کچھ ثابت کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
انہوں کہا کہ اگر 25 اپریل کی رپورٹ میں کچھ ثابت ہو سکا تو پھر یہ معاملہ نیب کے سیکشن نو کے تحت آئے گا۔ اور اگلی کارروائیاں نیب کرے گی۔ لیکن بقول ان کے نیب کی ماضی کی ناکامیوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ بس معاملات طول ہی کھینچتے رہیں گے اور تاریخیں ہی پڑتی رہیں گی۔