سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے قائم کردہ شوگر کمیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ جب کہ شوگر ملز مالکان کی قیمتوں میں مبینہ اجارہ داری سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے جولائی میں اعلیٰ اختیاراتی شوگر کمیشن کے قیام اور اس کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق شوگر ملز مالکان کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا یا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے قیام اور اس کے کام میں قوانین کو نظر انداز کیا گیا۔ جب کہ کمیشن کا نوٹیفکیشن بروقت جاری نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کارروائی کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے اپنی کارروائی کے دوران درخواست گزاروں کو صفائی کا موقع نہیں دیا۔ رپورٹ کے اجرا، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر کے ایکشن پلان اور خطوط سے درخواست گزاروں کا حق مجروح ہوا ہے۔ انتظامیہ کی قانون اور آئین میں مداخلت کے باعث بھی درخواست گزاروں کا حق متاثر ہوا ہے۔
واضح رہے کہ میرپور خاص شوگر ملز سمیت 19 شوگر ملز کے مالکان نے وفاقی حکومت کی شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور اس کے قیام کو سندھ ہائی کورٹ میں جون میں چیلنج کیا تھا۔
جسٹس محمد کریم خان آغا اور جسٹس عمر سیال پر مشتمل دو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے قیام کا مارچ 2020 میں جاری کردہ نوٹیفکیشن اور اس کی تمام تر کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ کمیشن کے تمام تر احکامات، کارروائی اور عمل کا کوئی قانونی جواز نہیں پایا جاتا۔
عدالت نے حکومت اور اداروں کو درخواست گزاروں کے خلاف کمیشن کے فیصلوں کے تحت کسی قسم کے اقدامات سے بھی روک دیا ہے۔
دوبارہ تحقیقات کے احکامات
قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو شوگر ملز مالکان کے خلاف دوبارہ تحقیقات کا حکم بھی فیصلے میں شامل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے بینچ کے 44 صفحات پر مشتمل فیصلے میں نیب کو حکم دیا گیا ہے کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیا درخواست گزاروں نے کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جو بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہو۔ یا اختیارات کا غلط استعمال کرکے شوگر ملز مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا ہو۔
عدالتی حکم کے تحت اس تحقیقات میں ایسے ماہرین کو شامل کیا جائے جو پاکستان میں شوگر انڈسٹری کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں۔
اسی طرح چیئرمین ایف بی آر کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس بارے میں ایک آزادانہ تحقیقات کریں جس میں یہ دیکھا جائے کہ کیا شوگر ملز مالکان نے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی یا کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کیا۔ اور اس تحقیقات کے دوران درخواست گزاروں کو صفائی کا مکمل حق دیا جائے۔ جب کہ آزادانہ تحقیقات میں بھی ایسے افراد کو شامل کیا جائے جو ملک کی شوگر انڈسٹری کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں۔
عدالت نے ایف آئی اے کو دیے جانے والے احکامات میں کہا ہے کہ آزادانہ تحقیقات میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت اس بات کا تعین کیا جائے کہ درخواست گزار اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔ جب کہ اسی طرح کی رپورٹس کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان، سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بینک سے بھی طلب کی گئی ہیں۔
'حکومتی اقدامات آئین اور قانون کے تحت ہونا ضروری ہیں'
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بدعنوانی، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، اجارہ داری کے مکروہ دھندے کینسر کی طرح معاشرے اور اس کی معاشی ترقی کو کھا رہے ہیں۔ ایسے کیسز میں سزا پانے والے ملزمان کے ساتھ آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنا ضروری ہے۔ ایسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مشتبہ افراد کو قانون اور آئین میں دیے گئے طریقۂ کار کے مطابق تمام حقوق دینے بھی ضروری ہیں تاکہ قانون کی حکمرانی اور بہتر طرزِ حکمرانی کی مثالیں پنپ سکیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے حکومتی اقدام کے مقاصد قابل ستائش ضرور ہوں گے مگر انہیں قانون اور آئین کے تحت ہونا ضروری ہے۔
'معاونین خصوصی کی کابینہ اجلاس میں مستقل شرکت آئین کی روح کے منافی ہے'
عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ ملکی آئین پارلیمانی جمہوری حکومت کا تصور پیش کرتا ہے۔ جہاں حکومت پارلیمان کے منتخب اراکین کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ جنہیں عوام منتخب کرکے پارلیمان میں بھیجتے ہیں۔ اور وہ ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بڑے پیمانے پر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ غیر منتخب افراد خاص طور پر وزیرِ اعظم کے خصوصی معاونین کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو آئین کے تحت رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر بننے کے بھی اہل نہیں ہوتے۔ اس طرح وہ عوام کے سامنے جواب دہ بھی نہیں ہوتے۔ یہ عمل بظاہر آئین کی شق 91 اور 92 کی تشریح کی خلاف ورزی نظر آتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر منتخب معاونین خصوصی کی مستقل کابینہ اجلاس میں شرکت 1973 کے آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی خلاف ورزی اور 1962 کے منسوخ شدہ صدارتی طرز حکومت کے آئین کے مطابق دکھائی دیتا ہے۔
دو رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا ہے کہ اسی طرح حکومت آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدارتی آرڈیننسز پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ عمل بھی پارلیمانی، جمہوری نظام کی نفی میں نظر آتا ہے۔ جہاں قوانین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت جاری کیے جاتے ہیں۔ اس طرح حکومتیں چلا کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومت آئین کے متعلقہ شقوں کی جان بوجھ کر بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ احتساب پر مشیر کے تقرر سے نیب کی آزادی اور ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت نیب کے ساتھ مل کر اپنے مخالفین کے خلاف کام کر رہی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں خواجہ سلمان رفیق اور دیگر کے کیس میں نوٹ کیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ ہونے کے باوجود داخلہ سے متعلق معاون کا تقرر کرنے سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ قوانین کے تحت دونوں کس طرح ایک ہی کام کر سکتے ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ عمل بہتر حکمرانی میں رکاوٹ نظر آتا ہے۔
انکوائری کمیشن رپورٹ میں کیا تھا؟
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے 21 مئی کو پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اہم رہنما جہانگیر ترین سمیت مختلف سیاست دانوں کے شوگر اسکینڈل میں ملوث ہونے سے متعلق بتایا تھا۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور بغیر تصدیق شدہ پرچیوں پر گنا خریدا۔ کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے۔ 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا۔ شوگر ملز نے 2017 اور 2018 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔ 2017 اور 2018 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی حالاں کہ کمیشن نے تعین کیا کہ یہ لاگت 38 روپے ہے۔
ان کے بقول اسی طرح 2018 اور 2019 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا۔ 2019 اور 2020 میں سولہ روپے کا فرق سامنے آیا۔ شوگر ملز نے 2018 اور 2019 میں 12 اور 2019 اور 2020 میں14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔ ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں۔ ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی۔ شوگر ملز نے غیر قانونی طور پر کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا۔ چینی کی قیمت میں ایک روپے اضافہ کر کے پانچ ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا گیا۔
شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 25 فی صد گنا رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا۔ پانچ برس میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔ ان شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لیے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ کے اجرا پر مرزا شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا۔ شہباز شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں۔ اسی طرح العربیہ شوگر ملز میں بغیر تصدیق شدہ پرچی کا رواج ملا اور اس نے کسانوں کو 40 کروڑ روپے کم دیے۔ جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملز کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین گروپ کی شوگر ملز بھی اوور انوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں۔
چینی گندم بحران کیا تھا؟
رواں سال جنوری میں ملک میں اچانک گندم اور چینی کی کمی کے باعث بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ ملک میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اس تمام صورت حال کے بعد ملک بھر میں آٹا 45 روپے فی کلو سے ایک دم 70 روپے فی کلو تک پہنچ گیا۔ قیمت میں اس قدر اضافہ کے باوجود بڑے اسٹاکسٹ نے گندم ذخیرہ کر لی جس کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔
گندم کے ساتھ ساتھ چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی اور 52 روپے کلو ملنے والی چینی کی قیمت 75 سے 80 روپے فی کلو ہو گئی۔
اس تمام بحران میں جہانگیر ترین اور بعض حکومتی شخصیات پر مبینہ بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ایف آئی اے کی چھ رکنی ٹیم نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) واجد ضیا کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارش پر انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔ حکومت کے مطابق کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔