|
اسرائیلی فوج کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ نیتجہ اخذ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم حماس 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر تاریخ کا مہلک ترین حملہ کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ اسرائیل کی طاقت ور فوج نے اس کے عزائم کا غلط اندازہ لگایا اور اس کی صلاحیتوں کو کم تر سمجھا تھا۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق اس رپورٹ سے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ حملے سے قبل سیاسی فیصلہ سازی کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کا آغاز کریں۔
واضح رہے کہ سیاسی فیصلہ سازی کی تحقیقات کا اسرائیل میں وسیع پیمانے پر مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
خبر کے مطابق بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے سے متعلق ناکامیاں فوج سے آگے تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ نیتن یاہو کو حملے سے پہلے کے سالوں میں ڈیٹرنس اور روک تھام کی ناکام پالیسی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
حملے سے قبل نیتن یاہو کی پالیسی میں قطر کو فلسطینی علاقے غزہ میں نقد رقوم کے سوٹ کیس بھیجنے کی اجازت دینا اور حماس کی حریف اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کو نظر انداز کرنا شامل تھا۔
نیتن یاہو نے اس ضمن میں ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد ہی مشکل سوالات کا جواب دیں گے۔
حماس کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اس وقت ایک کمزور سی جنگ بندی نافذ ہے جس سے لڑائی تقریبا چھ ہفتوں سے رکی ہوئی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم پر وسیع ترتحقیقات کرنے کیلئے سات اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہونے والے تقریبا 1،200 افراد کےخاندانوں اور یرغمال بنائے گئے لگ بھگ 250 افراد کے اہل خانہ سمیت عوامی دباؤہے۔ لیکن اس کے باوجود نیتن یاہو نے انکوائری کمیشن کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔
SEE ALSO: حماس کا حملہ: اسرائیل کے کتنے جنرل اب تک مستعفی ہو چکے ہیں؟فوجی تحقیقات کے اہم نتائج
فوجی تحقیقات کے اہم نتائج یہ تھے کہ خطے کی سب سے طاقتور فوج حماس کے عزائم کو غلط سمجھنے اور اس کی صلاحیتوں کو کم تر جاننے کے باعث سات اکتوبر کے دن یہودیوں کی ایک بڑی تعطیل کی صبح اچانک حملے کے لئے مکمل طور پر تیار نہیں تھی ۔
فوجی چھان بین کے نتائج اس سے قبل اسرائیلی حکام اور تجزیہ کاروں کی جانب سے اخذ کیے گئے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں۔
جمعرات کو اسرائیلی فوج نے رپورٹ کا صرف خلاصہ جاری کیا ہےجس میں نتائج کا خاکہ ہے۔اے پی کے مطابق ایک فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 7 اکتوبر "مکمل طور پر ناکام" رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ایک بنیادی غلط فہمی یہ تھی کہ حماس کے بارے میں سمجھا گیا کہ وہ اسرائیل سے لڑنے کے بجائے علاقے پر حکمرانی کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔
یاد رہے کہ حماس نے 2007 میں فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کا کنٹرول چھین لیا تھا۔
SEE ALSO: اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران ممکنہ طور پر جنسی تشدد کے واقعات ہوئے: اقوام متحدہ مشناسرائیلی فوج نے بھی اپنی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا تھا۔
اسرائیلی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ بدترین منظر نامے میں حماس آٹھ سرحدی مقامات سے اسرائیل پر زمینی حملہ کر سکتی تھی۔ درحقیقت، عہدیداوروں کے مطابق، حماس کے پاس حملوں کے لیے 60 سے زائد راستے تھے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد کی انٹیلیجنس معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ حماس اس سے قبل تین مواقع پر حملہ کرنے والی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس نے اسرائیل پر حملے میں تاخیر کی۔
حملے سے چند گھنٹے قبل اس بات کے اشارے ملے تھے کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔ ان اشاروں میں حماس جنگجوؤں کی اجانب سےپنے فون کو اسرائیلی سم کارڈز پر منتقل کرنا شامل تھا۔
SEE ALSO: مزید چار یرغمالوں کی لاشیں اسرائیل کے سپرد، اسرائیلی جیلوں سے سینکڑوں فلسطینی رہاایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے کہا کہ انٹیلیجنس سے پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ سنوار نے، جو سات اکتوبر کے حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا، سال 2017 میں حملے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کی تھی۔
اسرائیل کی فوج تعطیلات کے اختتامی ہفتہ پر " آف گارڈ " تھی یعنی پوری طرح الرٹ نہیں تھی۔ اس صورت حال میں حماس نے راکٹوں کی ایک بھاری لہر داغی جس سے ہزاروں جنگجو سرحد کی حفاظتی باڑ کے اندر سے یا اس کے اوپر سے "ہینگ گلائیڈرز" کے ذریعے اڑتے ہوئے اسرائیل میں داخل ہوگئے۔
ساتھ ہی حماس کے جنگجووں نے اسرائیل کے نگرانی کے کیمروں کو ناک آؤٹ کر دیا اور سرحد پر تعینات سینکڑوں فوجیوں کو تیزی سے زیر کر لیا۔
ایک اور فوجی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ باڑ پار کرنے کے بعد جنگجوؤں نے اہم شاہراہوں کے چوراہوں کی طرف پیش قدمی کی اور علاقے میں بھیجے گئے فوجیوں پر حملہ کیا جن میں کچھ سینئر افسران بھی شامل تھے۔
سینئیر افسران پر حملے سے اسرائیلی فوج کی کمان اور کنٹرول میں خلل پڑا۔
SEE ALSO: غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا: صدر ٹرمپحملے کے بعد پہلے تین گھنٹے تک حماس کے جنگجو سرحدی علاقوں میں اور موسیقی کے میلے کے مقام پر بہت کم مزاحمت کی وجہ سے اپنی کارروائیاں کرتے رہے۔
اسی دوران، اہل کار کے مطابق، حماس نے 251 افراد کو یرغمال بنا لیا جبکہ زیادہ تر لوگ مارے گئے تھے۔ افراتفری کے اس عالم میں "فرینڈلی فائر " یعنی اپنے ہی لوگوں کے خلاف فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ البتہ حکام نے ان واقعات کے اعداد و شمار ظاہر نہیں کیے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات بہت زیادہ نہیں تھے۔
حملے کے بعد اسرائیلی فوج کو دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کئی گھنٹے اور علاقے کو عسکریت پسندوں سے مکمل طور پر پاک کرنے میں کئی دن لگ گئے۔
رپورٹ میں فوج پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے بارے میں حد سے زیادہ پراعتمادتھی اور اسے اپنے خیالات کے متعلق کوئی شبہ نہیں تھا۔ رپورٹ نے انفرادی طور پر فوجیوں یا افسران پر الزام نہیں لگایا۔
تا ہم، اے پی نے ایک اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ کے نتائج سے ممکنہ طور پر فوج میں احتساب
اور بالآخر برطرفی ممکن ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کے کچھ اعلیٰ عہدے دار پہلے ہی سات اکتوبر کے حملوں کے بعد مستعفی ہو چکے ہیں جن میں ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور اسرائیل کے اعلیٰ ترین جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی بھی شامل ہیں جو اگلے ہفتے مستعفی ہو رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ بندی امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی 15 ماہ کی شدید لڑائی کے بعد ممکن ہوئی ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گرد حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیاا تھا جن میں بہت سوں کو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس کے اسرائیل میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کر دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل رفح پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملے کی مکمل تحقیقات کرے: امریکہسات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جوابی حملے کیے۔ حماس کےزیر اہتمام فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کے فوجی حملوں میں 48,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔غزہ کے ایک اندازے کے مطابق جنگ کے دوران 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے اور علاقے کا بنیادی ڈھانچہ اور صحت کا نظام تباہ ہو گیا ہے۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔
ادھر اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس نے فوجی کارروائیوں میں حماس کے ہزاروں عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)