ویب ڈیسک۔ امریکی اہلکاروں کے مطابق امریکی فوج آبنائے ہرمز کے ذریعے سفر کرنے والے تجارتی بحری جہازوں پر مسلح اہلکاروں کو رکھنے پر غور کر رہی ہے، جو ایران کو شہری جہازوں پر قبضہ کرنے اور انہیں ہراساں کرنے سے روکنے کے لیے ایک ایسی کارروائی ہوگی جس کا اس سے پہلے ذکر نہیں ہوا۔
اگر اس تجویز پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو یہ پینٹاگون کی طرف سے ایک غیر معمولی قدم ہو گا جو آبنائے ہرمز میں سفر کرنے والے بحری جہازوں کو ہراساں کرنے اور ضبط کرنے کی ایران کی نئی کوششوں سے نمٹنے کی سعی کر رہا ہے۔
دنیا کا تقریباً بیس فیصد تیل خلیج فارس کو وسیع دنیا سے ملانے والی ہر مز کی تنگ آبی گزرگاہ سے گزرتا ہے اور امریکہ اسے اپنی قومی سلامتی اور عالمی توانائی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے اہم سمجھتا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر امریکی تجویز کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
SEE ALSO: خلیج فارس میں امریکی فوجی قوت میں اضافہ، ایران-امریکہ کشیدگی بڑھ تو نہ جائے گی؟
ادھر ایران کے نیم فوجی دستے پاسداران انقلاب نے بدھ کو خلیج فارس کے متنازعہ جزائر پر اچانک فوجی مشق کا آغاز کیا ۔ اس سے پہلے امریکی فوج نے تہران کی طرف سے جہازوں پر قبضے کی حالیہ کارروائیوں کے بعد خطے میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادار ے ارنا نے اطلاع دی ہے کہ یہ مشق بنیادی طور پر ابو موسیٰ جزیرے پر مرتکزتھی حالانکہ پاسداران نے گریٹر تنب جزیرے پر بھی اپنی فوجیں اتاریں۔
سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مشق میں چھاتہ برداروں، ڈرونز اور ٹرک کے ذریعے زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل سسٹم کے ساتھ چھوٹی تیز کشتیوں کے دستوں نے حصہ لیا۔
پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے اس مشق کے دوران ٹیلیویژن پر خطاب میں کہا کہ ’’ہم ہمیشہ سلامتی اور سکون کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہی ہمارا راستہ ہے۔ ہماری قوم چوکس ہے، اور وہ تمام خطرات، پیچیدہ بغاوتوں ، خفیہ کارروائیوں اور مخاصمتوں کا سختی سے جواب دیتی ہے۔‘‘
یہ مشق ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس بیٹن اور ایک لینڈنگ بحری جہاز یو ایس ایس کارٹر ہال پر ہزاروں میرین فوجی اور ملاح خلیج فارس کی جانب گامزن ہیں۔ امریکہ نے پہلے ہی A-10 تھنڈربولٹ II جنگی طیارے، F-16 اور F-35 طیاروں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرائیر یو ایس ایس تھامس ہڈنر بھی خطے میں بھیجے ہیں۔
پینٹاگون نے کہا ہے کہ’’ یہ تعیناتی ایران کی جانب سےکی جانے والی ان حالیہ کوششوں کے جواب میں کی گئی ہے جو آبنائے ہرمز اور اس کے آس پاس کے سمندر میں تجارت کے آزادانہ بہاؤ کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ ‘‘
دریں اثنا، ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد اب یورینیم کو پہلے سے کہیں زیادہ افزودہ کر لیا ہے جس سے وہ ہتھیاروں کی تیاری کے قریب ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کے خطے میں جنگی طیارے بھیجنے کے اعلان کے بعد ایرانی فضائیہ کی مشقیں
اس مشق میں ابو موسیٰ اور گریٹر تنب کو شامل کرنے سے خطے کو ایک اور پیغام دیا گیا ہےجبکہ ان دونوں جزیروں پر متحدہ عرب امارات کا دعویٰ ہے ۔
ایران کے مرحوم شاہ نے 1971 میں متحدہ عرب امارات کے آزاد ملک بننے سے پہلے ہی ان جزائر پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے تہران ان جزائر پر قابض ہے۔
لیسر تنب جزیرہ پر بھی قبضہ کر لیا گیاتھا۔ ان جزائر پر قبضہ ایران کے پڑوسیوں کو اس کی فوجی طاقت کا احساس دلاتا ہے جبکہ تہران کے سفارت کار امریکہ کے اتحادی خلیجی عرب ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے کو محفوظ بنانے کے لیے ’’غیر ملکیوں‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایران ان جزائر کے بارے میں روس کے حالیہ تبصروں پر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ تہران نے یوکرین میں جنگ کے لیے روس کو بم بردار ڈرون فراہم کیے ہیں۔
اس موسم گرما کے آغاز میں روس نے خلیجی تعاون کونسل کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں ’’دوطرفہ مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف ‘‘ سے اس فیصلے کا مطالبہ کیا تھا کہ جزائر پر کس کو کنٹرول کرنا چاہئیے۔ اس سے ایران میں کھلبلی مچ گئی اور تہران نے اس حوالے سے روسی سفیر کو طلب کیا تھا۔
(اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )