رسائی کے لنکس

خلیج فارس میں امریکی فوجی قوت میں اضافہ، ایران-امریکہ کشیدگی بڑھ تو نہ جائے گی؟



امریکی بحریہ۔ یو ایس ایس بیٹن بحیرہ روم میں
امریکی بحریہ۔ یو ایس ایس بیٹن بحیرہ روم میں

خلیج فارس میں امریکہ اپنی قوت میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے ہزاروں میرینز کو جدید لڑاکا طیاروں اور جنگی جہازوں کی مدد حاصل ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ اگرچہ خطے میں امریکہ کی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے تاہم ایران کے ساتھ، اس کے جوہری پروگرام کے تناظر میں محاذ آرائی بدستور خراب ہوتی جا رہی ہےاور اس کا کوئی حل بھی دکھائی نہیں دیتا۔

فوجیوں کو اسٹیلتھ 35-F لڑاکا طیاروں اور طیارہ بردار یو ایس ایس بیٹن کے ساتھ ایک ایسے وقت خلیج میں بھیجا جا رہا ہے جب امریکہ، چین اور روس پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔

تاہم واشنگٹن کے پیشِ نظر ایک بار پھر یہ بات ہے کہ اگرچہ مشرق وسطیٰ میں عسکری موجودگی رکھنا آسان ہےلیکن اس سے مکمل طور پر نکل آنا مشکل ہے۔

خاص طور پر 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی کو اس حد تک بڑھا لیا ہے کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ممکن ہو سکتی ہے۔

اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ سفارت کاری کے ذریعے اس معاہدے کو جلد بحال کیا جا سکے گا۔

ادھر ایران نے حالیہ ہفتوں میں آبنائے ہرمز سے گزرنے والے بحری جہازوں کو ہراساں کرنا اورانہیں ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کا تقریباً بیس فیصد تیل خلیج فارس کو باقی دنیا سے ملانے والی اس تنگ آبی گزرگاہ سے ہی گزرتا ہے۔

فائل فوٹو۔خلیج فارس میں ایرانی کشتی
فائل فوٹو۔خلیج فارس میں ایرانی کشتی

تہران کی مذہبی حکومت میں سخت مؤقف کے حامل لوگوں کے لیے یہ اقدام ارد گرد کے ممالک کو طاقت فراہم کرتا ہے اور اسے2019سے ایران سے منسوب حملوں کی ایک لہر کا حصہ خیال کیا گیا ہے ۔

یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک انتباہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس جوابی کارروائی کے لیے وسائل موجود ہیں خاص طور پر جب امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی خام تیل لے جانے والے بحری جہازوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

جہازوں پر اسی نوعیت کے قبضے کے خدشات نے ایرانی تیل لے جانے والے ایک جہاز کو ٹیکساس ہی میں روکا ہوا ہےاور کسی بھی کمپنی نے ابھی تک اس سے تیل اتارا نہیں ہے۔

آبنائے ہرمز کو جہاز رانی کے لیے کھلا رکھنا امریکہ کے لیے ایک ترجیحی معاملہ ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو جبکہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ خاص طور پر مارکیٹوں پر دباؤ ڈالتی ہے۔

خلیجی عرب ممالک کو اپنا تیل منڈی تک پہنچانے کے لیے آبی گزرگاہ کی ضرورت ہے اور وسیع تر خطے میں ایران کے ارادوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

انہی خدشات نے خلیج فارس میں طویل عرصے سے امریکی موجودگی کو تقویت بخشی ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کی دو دہائیوں میں بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ دو مختلف امریکی طیارہ بردار بحری جہاز افغانستان اور عراق کی جنگوں اور بعد میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے ضرورت پڑنے پر طیارے فراہم کرنے کے لیے خلیج میں گشت کر تے رہے۔

آبنائے ہرمز میں ایک امریکی نیوی اسپیشلسٹ۔ فائل فوٹو
آبنائے ہرمز میں ایک امریکی نیوی اسپیشلسٹ۔ فائل فوٹو

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ نے امریکہ کی کچھ توجہ یورپ کی جانب منتقل کر دی ہے۔ ادھر چین بحیرہ جنوبی چین کے زیادہ حصے پر کنٹرول کے لیے اپنا دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے جس کے رد عمل میں امریکی بحریہ نے گشت میں اضافہ کر دیا ہے۔

امریکی فوج نے حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کوثابت کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے آبنائے ہرمزمیں گشت کی جس میں خطے میں موجود اعلیٰ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی بحریہ کے کمانڈرز شامل تھے۔

مارچ کے آخر میں-A 10تھنڈربولٹ II جنگی طیارے متحدہ عرب امارات کے الظفرہ ایئر بیس پر پہنچے۔ پینٹاگون نے 16-F لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرائر یو ایس ایس تھامس ہڈنر کو خطے میں بھیجنے کا حکم دیا جبکہ سٹیلتھ 35A-F لائٹننگ II لڑاکا طیارے گزشتہ ہفتے پہنچے ہیں ۔

تقریباً دو برسوں میں پہلی بار اب خطے میں امریکی میرین مہماتی یونٹ کا حصہ بھی موجود ہوگا۔ ہزاروں میرینز اور ملاحوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ یو ایس ایس بیٹن اور یو ایس ایس کارٹر ہال بھی وہاں موجود ہیں۔ یو ایس ایس کارٹر ہال ایک ایسا بحری جہاز ہے جس پر طیارے لینڈ کر سکتے ہیں۔

امریکی بحریہ کے کمانڈربریڈ اے فینچر یو ایس ایس کارٹر ہال کے عرشے پر
امریکی بحریہ کے کمانڈربریڈ اے فینچر یو ایس ایس کارٹر ہال کے عرشے پر

اگرچہ امریکی فوج نےواضح طور پر اس بارے میں بات نہیں کی ہے کہ خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے کیا ہو گا۔ تاہم اس اقدام نے ایران کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے حالیہ دنوں میں کویت اور متحدہ عرب امارات میں اپنے ہم منصبوں کو فون کر کے کہا کہ ’’ہم غیر ملکیوں کی موجودگی کے بغیر خطے میں امن، استحکام اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

ایران کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالرحیم موسوی نے کہا کہ امریکی تعیناتی سے خطے میں صرف ’’عدم تحفظ اور نقصان‘‘ ہو گا۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق موسوی نے کہا کہ ’’ برسوں سے امریکی اپنے لا حاصل خوابوں کے ساتھ خطے میں آتے جاتے رہے ہیں لیکن خطے کی سلامتی صرف علاقائی اقوام کی شرکت سے ہی برقرار رہے گی۔‘‘

ایران نے اپنے ابو مہدی کروز میزائل کی دوبارہ نمائش کا بھی اشارہ کیا جس کی نقاب کشائی پہلی بار 2020 میں کی گئی تھی اور جسے سمندر میں ایک ہزار کلومیٹر تک کے فاصلے پر بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میزائل کا نام ابو مہدی المہندس کے نام پر رکھا گیا ہے جو ایک تجربہ کار عراقی عسکریت پسند تھااور2020 میں بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ مارا گیا تھا جو امریکی ڈرون حملے کا ہدف بنے تھے۔

ایران خلیج فارس کشیدگی
ایران خلیج فارس کشیدگی

یہ سارا پس منظر تنازعات کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ اگر چہ خطے میں امریکی افواج کے اس سے پہلے کے اضافے کے نتیجے میں کھلم کھلا جنگ نہیں ہوئی ہے۔ تاہم دونوں فریق ماضی میں نبرد آزما رہے ہیں۔

امریکہ نے 1988میں ایران میں فوجی نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے تیل کے دو رگز پر حملہ کیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی امریکی بحری جنگ میں ایرانی بحری جہازوں کو غرق کر دیا یا انہیں نقصان پہنچایا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سفارت کاری میں تعطل اور ایران کی سمندر میں مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادگی کودیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر فوجی طاقت پر انحصار کر رہا ہے تاکہ تہران کو پیچھے ہٹنےکے لیے قائل کیا جا سکے۔ لیکن اس طرح ان دونوں ملکوں کے درمیان سمندروں سے ہٹ کر باقی مسائل کی تلخی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)

فورم

XS
SM
MD
LG