امریکہ کےڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک جائیزے میں بتایا گیا ہے کہ ایران نےدو ہزار بیس کے بعد سے ایٹم بم بنانے کی اپنی صلاحیت بڑھانے کی جانب اقدامات کئے ہیں لیکن ابھی تک وہ بم بنانے سے باز رہا ہے۔
یہ نتائج ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں پچھلے امریکی جائزوں سے مطابقت رکھتے ہیں، تاہم کانگریس میں اور دیگر جگہوں پر بہت سے لوگ ان پر شکوک کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ برسر اقتدار آنے کے بعد سے،ایران کے ساتھ 2015 کے اس جوہری معاہدے میں جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا JCPOA کہا جاتا ہے واپسی کی اپنی خواہش کا دفاع کر رہی ہے۔
یہ کوشش حالیہ مہینوں میں اس کے اعلیٰ مذاکرات کار، راب میلی کی معطلی سے پیچیدہ ہو گئی ہے، جنہیں گزشتہ ماہ بلا تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا، تاکہ اس دعوے کی تحقیقات کی جاسکیں کہ انہوں نے خفیہ معلومات کو غلط طریقے سے استعمال کیا۔
رپورٹ کے دو صفحات پر مشتمل خلاصے کے مطابق ،جو کوئی خفیہ دستاویز نہیں ہے، "ایران فی الحال جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلے میں ایسے کوئی اہم اقدامات نہیں کر رہا ہے جو قابل آزمائش نیوکلیئر ڈیوائس تیار کرنے کے لیے ضروری ہوں"۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران " ایسی تحقیقی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے جو اس صورت میں جب وہ ایسا کرنے کا فیصلے کرلے، تو اسے جوہری بم مکمل کرنے کے لیے درکار اشقاق کے مواد کی تیاری کے قریب لے جائے گا"۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے "ایران یورینیم کو افزودہ کرنے کے بارے میں دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے کی ان شرائط کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے جن پر وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ راضی ہوا تھا۔ دو ہزار اٹھارہ میں ٹرمپ حکومت اس معاہدے سے الگ ہو گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایران اپنے یورینیم کے ذخائر کی مقدار اور اس کی افزودگی کی سطح میں جوہری معاہدے میں طے شدہ حدود سے تجاوز کا سلسلسہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ کہ وہ جدید سینٹری فیوج ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے معاملے میں بھی دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے میں مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھ رہا ہے۔
ان نتائج کو عمومی طور پراقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنے کے نتائج سے مدد ملی ہے۔
جوہری نتائج کے علاوہ، امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام مشرقِ وسطیٰ کے آس پاس کے ممالک کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ایران نے اپنے میزائلوں کے درست نشانوں پر پہنچنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے، ان کی ہلاکت خیزی اور اان پر اپنے اعتماد ہ پر زور دیا ہے۔"
(اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)