بھارتی وزیرِ تجارت کا دورۂ امریکہ؛ مساوی باہمی ٹیرف پر بات چیت کا امکان

  • بھارتی وزیرِ تجارت دورۂ امریکہ کے دوران باہمی مساوی ٹیرف پر امریکی عہدیداروں سے وضاحت اور اس کے بھارت پر اثرات کا جائزہ لیں گے، حکومتی ذرائع
  • اگر امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر باہمی مساوی ٹیرف عائد کیا تو زراعت اور آٹوز کے شعبے متاثر ہوں گے: تاجروں کو خدشہ
  • باہمی مساوی ٹیکس عائد ہونے کی صورت میں بھارت کو سالانہ سات ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے: تجزیہ کار

نئی دہلی — بھارت کے وزیرِ تجارت پیوش گوئل امریکہ کا پانچ روزہ دورہ کر رہے ہیں جہاں ٹرمپ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتیں متوقع ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ بھارت کے وزیرِ تجارت اپنے دورے میں امریکہ کے تجارتی نمائندے جیمیسن گریر اور کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹنک اور دیگر اہل کاروں سے بھی تبادلۂ خیال کریں گے۔

پیوش گویل ایسے موقع پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب حال ہی میں صدر ٹرمپ نے بھارت سمیت تجارتی شراکت داروں پر مساوی ٹیرف کی تجویز پیش کی تھی۔

صدر ٹرمپ کی تجویز ہے کہ جو ملک امریکی مصنوعات پر جتنا ٹیرف عائد کرتا ہے، اس کی مصنوعات پر بھی اتنا ہی ٹیرف عائد ہو گا۔

بھارتی تاجروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر باہمی مساوی ٹیرف عائد کیا تو زراعت اور آٹوز کے شعبے متاثر ہوں گے۔

مساوی ٹیرف کے تناظر میں پیوش گوئل کے دورۂ امریکہ کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔

SEE ALSO: ٹرمپ کا تجارتی پارٹنرز پر 'جوابی ٹیرف' عائد کرنے کا اعلان

معاشی امور پر نظر رکھنے والے سٹی ریسرچ سے وابستہ تجزیہ کاروں کے اندازوں کے مطابق باہمی مساوی ٹیکس عائد ہونے کی صورت میں بھارت کو سالانہ سات ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فارماسوٹیکل، فوڈ اور آٹو موبائل کے بعد کیمیکل، دھاتی مصنوعات، جیولری وہ مصنوعات ہیں جو ممکنہ امریکی ٹیرف کی زد میں آسکتی ہیں۔

بھارتی تھنک ٹینک 'گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو' کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ نے باہمی مساوی ٹیکس کا دائرہ زرعی اجناس تک بڑھایا تو اس سے زراعت اور کھانے پینے کی برآمد سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔

امریکی صدر نے گزشتہ ماہ واشنگٹن کے دورے پر آنے والے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران بھی باہمی مساوی ٹیرف کا ذکر کیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت امریکی مصنوعات پر جو بھی ٹیرف لگاتا ہے، امریکہ بھی اتنا ہی ٹیرف لگائے گا۔ امریکہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارت کی طرف سے کیا ٹیرف لگائے جاتے ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے تجارتی معاہدے پر بات چیت پر اتفاق کیا تھا جب کہ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت آنے والے ہفتوں میں تجارت بڑھانے پر مذاکرات شروع کریں گے۔

SEE ALSO: پاکستان یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو: ٹرمپ، مودی ملاقات کا اعلامیہ

وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں نے 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

بھارتی وزیرِ تجارت کا دورہ کتنا اہم ؟

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی‘ سے وابستہ اور سینئر اقتصادی تجزیہ کار جاوید عالم خان کے مطابق وزیرِ تجارت کے دورے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ بھارت صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے کافی پریشان ہے اور اس پریشانی کا حل نکالنا چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وزیرِ تجارت اس معاملے پر امریکی اہل کاروں سے بات کرتے۔ تاکہ معیشت کو پیش آنے والے ممکنہ مسائل کو دور کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔

نئی دہلی کے اخبار ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ سے وابستہ تجارتی امور کی تجزیہ کار شرئیا نندی کے مطابق بھارت باہمی محصولات سے استثنیٰ طلب کر سکتا اور دونوں ممالک تجارتی معاہدے کے ذریعے ایک دوسرے کو بڑی مارکیٹ تک رسائی دے سکتے ہیں۔

انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس دورے سے اشارہ ملتا ہے کہ بھارت امریکہ کی نئی حکومت کی تجارتی پالیسی میں تبدیلیوں کو فوری طور پر سمجھنا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے باہمی مساوی محصولات عائد کرنے کے اعلان کے بعد امریکی اہل کاروں کے ساتھ بھارتی وزیرِ تجارت کی یہ پہلی ملاقات ہوگی۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ ٹیرف کو تجارتی پارٹنرز کے ساتھ مذاکرات کے لیے استعمال کر سکتاہے، ثاقب رضاوی

شرئیا نندی کے مطابق امریکی اہل کاروں سے پیوش گوئل کے مذاکرات میں باہمی تجارتی معاہدے کے وسیع پہلوؤں پر بھی تبادلٔۂ خیال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پیوش گوئل نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان ٹیرف کی شرحوں کی تشریح میں فرق کے معاملے کو بھی اٹھا سکتے ہیں۔

سینئر اقتصادی تجزیہ کار جاوید عالم خان کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ ’امریکہ فرسٹ‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیےاقدامات کر رہی ہے۔ اس کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس سے دوسرے ملکوں کو کتنا نقصان ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے چوں کہ جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار میں تجارت کا 45 فی صد کے قریب حصہ ہے اس لیے اگر تجارت کی صورت حال کو بہتر نہیں کیا گیا تو اس کا اثر مینوفیکچرنگ، سروس سیکٹر اور زرعی مصنوعات پر پڑے گا اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

ان کے خیال میں ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے ضروری ہے کہ صرف زراعت پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے۔ اس لیے پیوش گوئل کا یہ دورہ بہت ضروری تھا۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس دورے کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ واضح کیا ہے کہ واشنگٹن باہمی جوابی محصولات سے بھارت کو الگ نہیں رکھے گا۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ بھارت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے۔ انھوں نے موٹر سائیکل اور زرعی سیکٹر کی مثال پیش کرتے ہوئے بھارت کو ’ٹیرف کنگ‘ کہا تھا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق بھارت امریکہ سے تقریباً 70 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے جب کہ سال 2023 میں اس کی امریکہ کو برآمدات 120 ارب ڈالر تھیں۔