گزشتہ ہفتے امريکہ اور طالبان کے درميان دوحہ ميں امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بين الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی ہے جو متوقع طور پر رواں ماہ کی 10 تاريخ کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو ميں ہوں گے۔
امن معاہدے کے مطابق بين الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت پانچ ہزار طالبان قيدی جبکہ طالبان ايک ہزار حکومتی قيديوں کو رہا کريں گے۔
تاہم افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ اس شق کے پابند نہیں جس ميں قيديوں کی رہائی کی بات کی گئی ہے۔
امن معاہدے کے باوجود افغانستان کے مختلف صوبوں ميں طالبان اور حکومتی فورسز کے درميان شديد جھڑپيں جاری ہيں جس ميں درجنوں شہريوں کے علاوہ سيکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے ہيں۔
ذرائع ابلاغ ميں طالبان سے منسوب ايک بيان سامنے آيا ہے جس ميں طالبان نے اپنے کمانڈروں کو افغان سيکورٹی فورسز کے خلاف جارحانہ کارروائياں دوبارہ شروع کرنے کی ہدايت کی ہے۔
اگرچہ اس بيان کو طالبان نے تسليم نہيں کيا ليکن اس حوالے سے اب تک اُن کی جانب سے کوئی ترديد بھی سامنے نہيں آئی ہے جس کے بعد ايک نيا بحران کھڑا ہو گيا ہے۔
امريکہ اور طالبان کے درميان امن معاہدے کے مطابق امريکہ اگلے تین سے چار ماہ کے دوران افغانستان ميں اپنی افواج 13000 سے کم کر کے 8600 کر دے گا جب کہ باقی رہ جانے والی فوجيں اگلے 14 ماہ ميں افغانستان سے نکل جائيں گی ليکن اس کا دار و مدار طالبان کی جانب سے دہششت گردی کی روک تھام کے سلسلے ميں ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر بھی ہے۔
افغان صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے اور افغان امور کے ماہر سينئر صحافی سميع يوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اپنے بيان کے تناظر ميں طالبان کو دباؤ ميں لانا چاہتے ہيں ورنہ درحقيقت وہ بھی بين الافغان مذاکرات کے حامی ہيں۔
وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ افغان حکومت بھی قيديوں کی رہائی کے لیے تيار ہے اور اس ضمن ميں ان کا ايک وفد دوحہ ميں طالبان کے ساتھ بات چيت ميں مصروف ہے۔
طالبان کے دوحہ ميں قائم سياسی دفتر کے ترجمان سہيل شاہين نے ايک ٹوئٹ کے ذريعے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہم نے کابل انتظاميہ کے وفد سے ملاقات نہيں کی ہے بلکہ ہماری پاليسی يہ ہے کہ ان سے صرف ہمارے قيدی امور کے عہديدار ہی ملاقات کريں جس کے ذريعے بين الافغان مذاکرات سے قبل 5000 قيديوں کی رہائی عمل ميں لائی جا سکے۔
سميع يوسف زئی نے مزيد بتايا کہ اگرچہ ان مذاکرات کی تاريخ 10 مارچ رکھی گئی ہے ليکن قيديوں کی رہائی کے مسئلے سے متعلق افغان حکومت اور طالبان ميں غلط فہمی کے باعث شاید يہ مقررہ ٹائم پر ممکن نہ ہو۔
اُن کے مطابق زيادہ تر مسائل افغان حکومت کی جانب سے ہيں کيونکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی بھی يہی خواہش ہے کہ کابل کی مذاکراتی ٹيم ميں ان کی بھی نمائندگی ہو تاہم اب تک يہ بھی طے نہیں ہوسکا ہے کہ مذاکرات کہاں ہوں گے۔
دوسری جانب امريکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی مذاکراتی ٹيم کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ٹيلی فون پر رابطہ کيا ہے۔ انہوں نے اس گفتگو کو 'مفيد' قرار ديا ہے۔
سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے قيديوں کی رہائی سے متعلق مسئلہ اس لیے اٹھايا ہے تاکہ اس سارے عمل میں ان کی بھی انٹری ہو سکے۔
ان کے بقول، اب تک جو مذاکرات ہوئے ہيں وہ امريکہ اور طالبان کے درميان ہوئے ہيں جب کہ افغان صدر کم از کم قيديوں کی رہائی کے سلسلے ميں اپنا اثر و رسوخ دکھانا چاہتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے مزيد بتايا کہ اشرف غنی نے صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے يہ اقدام اٹھايا ہے ليکن يہ سب کچھ کرنے کے لیے وہ سارے امن عمل کو داؤ پر لگا رہے ہيں۔
رستم شاہ کے مطابق اشرف غنی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ايک سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران اُن سے طالبان قیدیوں کی رہائی کی بات چھپائی گئی تھی اور اب يہ راز ان پر افشاں ہو رہا ہے۔
کچھ مبصرين کے مطابق بين الافغان مذاکرات ميں افغان دھڑوں کی پوزيشن کمزور ہو گی کيوں کہ عالمی برادری کی جانب سے طالبان کو بہت زيادہ پذيرائی ملی ہے۔
ايک عام تاثر يہ بھی ہے کہ ان مذاکرات ميں طالبان غالب آ جائیں گے ليکن رستم شاہ مہمند، اس دليل سے متفق نہيں ہيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ طالبان کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور تمام دھڑوں کو متحد کرنا ہوگا۔
اُن کے بقول، افغانستان کے نئے سيٹ اپ ميں شاید اشرف غنی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو ليکن جتنے بھی داخلی دھڑے ہيں انہیں نمائندگی دينا ہوگی۔ اس کے بغير کوئی چارہ نہيں ہے۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ افغان عوام بھی 40 سالہ جنگ سے تنگ آ چکے ہيں اور وہ امن چاہتے ہيں۔ چاہے وہ کسی بھی قيمت پر ہو۔ امريکہ بھی امن چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے لیے رواں برس اليکشن کا سال ہے ان کے پاس بھی اتنے فعال جنگجو نہیں ہيں جو ہر وقت لڑنے کو ترجيح ديں۔
رستم شاہ مہمند کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی بھی ملک افغانستان کے اندرونی معاملات ميں دخل اندازی نہیں چاہتا۔ اگر دخل اندازی کا کوئی خطرہ ہے تو وہ افغانستان کے اندر سے ہے۔ افغانستان سے باہر کوئی بھی اس امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
طالبان رہنما اس بات پر بضد ہيں کہ ان کا نظام حکومت شريعت پر مبنی ہو گا ليکن رستم شاہ مہمند کے مطابق ايسا ممکن نہیں ہوگا۔ 20 سالہ جنگ نے طالبان کو بہت کچھ سکھايا ہے اور وہ سياسی طور پر بہت سمجھ دار ہو گئے ہيں۔
حاليہ دنوں ميں طالبان کے ڈپٹی ليڈر سراج الدين حقانی نے نيويارک ٹائم ميں اپنے مضمون ميں خواتین کی آزادی کے بارے ميں لکھا ہے کہ اُنہیں تعليم اور ملازمت کرنے کی مکمل آزادی ہو گی اس کے علاوہ انہوں نے مستقبل ميں امريکہ کے ساتھ بھی کليدی تعلقات پر زور ديا ہے۔
سابق سفارت کار کے مطابق طالبان نے بہت کچھ سيکھا ہے اور اسی اثنا ميں انہوں نے روس کے ساتھ بھی تعلقات استوار کر لیے ہيں جنھوں نے 80 کے اوائل ميں افغانستان پر نہ صرف حملہ کيا تھا بلکہ سالوں وہيں مقيم رہے اور افغانوں کے ساتھ لڑتے رہے۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ طالبان نے ايران اور چين کے ساتھ بھی اچھے سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہيں اور اسی طرز کے تعلقات وہ مستقبل ميں امريکہ کے ساتھ بھی رکھنا چاہتے ہيں۔
اُن کے مطابق طالبان نے پچھلے دور میں یعنی 1996 سے 2001 تک کے عرصے میں جو غلطياں کی تھيں وہ نہ تو دہرائيں گے اور نہ ہی عوام انہيں ايسا کرنے ديں گے۔ افغانستان بہت حد تک بدل چکا ہے۔
رستم شاہ مہمند کے مطابق طالبان کو اب اپنی تحريک کو سياسی تحريک ميں بدلنا ہوگا اور ان کی قیادت کو تعليم، صحت، بین الاقوامی تعلقات، آئين، قانون اور مستقبل ميں حکومتی امور چلانے کے لائحہ عمل سے عوام کو آگاہ کرنا ہو گا۔