امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کو امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔ افغانستان کی جنگ کے فریقین کو امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد 19 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔
تجزیہ کار طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو افغانستان کے لیے تاریخ ساز لمحہ اور امن کی جانب اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ البتہ ان کے خیال میں افغانستان میں پائیدار امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کامیاب ہونا ضروری ہیں۔ جو رواں سال مارچ میں شروع ہو سکتے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 18 ماہ تک مذاکرات جاری رہے۔ افغان جنگ کے فریقین امن معاہدہ پر رضامند ہیں اور اس معاہدے پر باضابطہ دستخط کی تقریب 29 فروری کو ہو گی۔ جس کے بعد افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہو گا اور بین الافغان مذاکرات کے اہم مرحلے کا آغاز ہو گا۔
افغان امور کے ماہر تجزیہ کار اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہو گا۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق یہ معاہدہ ایک سُپر پاور اور ایک مسلح گروہ کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ دو سال پہلے کسی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت ہو گی اور معاہدہ بھی طے پا جائے گا۔
ان کے بقول امریکہ، طالبان معاہدہ افغانستان میں امن کی جانب اہم قدم ہو گا۔ اس لیے اس کی کافی اہمیت ہے۔ لیکن افغانستان میں پائیدار امن کی راہ میں اب بھی کئی مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق طے کیا جائے گا جب کہ طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ ان کے زیر کنٹرول علاقے کسی دوسرے ملک بشمول امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ، افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ایک ابتدا ہو گی۔ لیکن پائیدار امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بین الافغان مذاکرات کب شروع ہوں گے اور کب مکمل ہوں گے۔ بین الافغان مذاکرات مکمل ہونے کے بعد ہی یہ معلوم ہو گا کہ افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہو جائے اور موجودہ جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع ہو جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو جائیں گے۔
خیال رہے کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ ایک ایسے وقت شروع ہونے کا امکان ہے جب افغانستان میں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سیاسی چپقلش جاری ہے اور دونوں صدارتی انتخابات جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق کابل میں جاری سیاسی تناؤ بین الافغان مذاکرات کے لیے کسی طور پر بھی سود مند نہیں ہے۔ ان کے بقول امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے رواں ہفتے جمعرات کو ہونے والی صدارتی حلف برداری کی تقریب بھی ملتوی کر دی گئی ہے جو اب نو مارچ کو ہو گی۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ اگرچہ طالبان بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار اور ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ لیکن کابل حکومت کا اس بارے اب تک کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا؟
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہو گا۔ اگرچہ ان مذاکرات کا ایجنڈا ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں آئین میں ترمیم اور تشدد میں مستقبل بنیادوں پر کمی کے علاوہ طالبان کی طرف سے اسلامی نظام کے حوالے سے مطالبات زیر بحث آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی سے متعلق معاہدے پر عمل درآمد کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا اور افغانستان کے سیاسی مستقبل اور خواتین کے حقوق کے معاملات بھی بین الافغان مذاکرات کا حصہ ہوں گے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کے بقول بین الافغان مذاکرات کے دوران طالبان کو مفاہمت اور مصلحت سے کام لینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو مصلحت اور لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے ہوں گے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے بقول طالبان نے ماضی میں طاقت کی بنیاد پر حکومت حاصل کی تھی۔ لیکن اب افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلے بات چیت اور اتفاق رائے سے ہی ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار زاہد حسین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کو اپنے آپ کو افغانستان کے سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
زاہد حسن کے بقول بعض طالبان رہنما اس بات کا عندیہ دے رہیں کہ وہ افغانستان میں سخت گیر حکومت قائم کرنے کے خواہاں نہیں ہیں اور سب افغانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ طالبان کو بھی یہ اندازہ ہے کہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران صورتِ حال تبدیل ہو چکی ہے۔
بین الافغان مذاکرات اور علاقائی ممالک کا کردار
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد بین الافغان مذاکرات کو کامیاب کرانے میں خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر چین، روس اور پاکستان کا کردار اہم ہو گا۔
تجزیہ کار رحیم اللہ کے مطابق چین کی ساکھ اچھی ہے اور وہ افغانستان کے معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ ان کے بقول چین، افغانستان میں امن کی واپسی کے بعد سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت روس کے کردار کے بارے میں اگرچہ اتنی پرجوش نہیں ہے۔ لیکن روس کے افغان حکومت اور طالبان دونوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس لیے روس بھی کچھ نا کچھ کردار ادا کر سکتا ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن بین الافغان مذاکرات میں پاکستان کو محتاط رہنا پڑے گا۔ کیوں کہ پاکستان کے مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے یا طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو محتاط رویہ اپنانا ہو گا۔