افغان سیاست دان اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کی 10 مارچ کی ڈیڈ لائن پر عمل کر پائے گی جس پر امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے میں اتفاق ہوا تھا۔
پاکستان کے لیے سابق افغان سفیر عمر زاخیل وال نے کہا ہے کہ طالبان سے بات چیت کے لیے ایک خصوصی ٹیم بنانے کا عمل سست رفتاری میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ افغان حکومت کے لیے یہ کافی دشوار ہو گا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک ایسی ٹیم بھیج سکے جو پوری افغان سوسائٹی کی نمائندگی کر سکے۔
جب کہ نائب صدارتی ترجمان دعوی خان مینا پال نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ حکومت پہلے ہی طالبان سے اولین رابطے کے لیے ایک وفد دوحہ بھیج چکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ ملاقات کے بعد بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا تیار کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ امن مذاکراتی ٹیم مختصر اور مؤثر ہو گی، لیکن اس کے اختیارات محدود ہوں گے۔
چیف ایگزیکٹو دفتر کے نائب ترجمان عمید مسیان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی امن مذاکراتی ٹیم کی تیاری کا کام جاری ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ افغان سیاست دانوں نے بات چیت کے لیے ایک فہرست تیار کی ہے جسے صدارتی فہرست کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا۔
افغان سیاست دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر طالبان اور صدر اشرف غنی کے درمیان اختلاف کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، جس کے لیے 10 مارچ کی تاریخ طے کی گئی تھی۔
یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات ناروے میں ہوں گے۔
ایک اور خبر کے مطابق کابل میں سول سوسائٹی نے مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امن معاہدے کی شرائط کے تحت پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے۔ افغان صدر اشرف غنی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی طالبان قیدیوں کی رہائی کی شرط قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کے روز سی بی ایس نیوز چینل کے پروگرام’ فیس دی نیشن‘ میں اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ منظر عام پر آنے والے امن معاہدے میں دو اور چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں خفیہ رکھا گیا ہے۔ ان چیزوں کا تعلق فوج سے ہے اور وہ ہمارے فوجیوں کے تحفظ کے لیے ضروری دستاویز ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاغذ پر لکھے الفاظ پر نہیں جائیں گے بلکہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ طالبان نے جو وعدے کیے ہیں وہ ان پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ افغان فورسز کے خلاف حملے جاری رکھیں گے کیونکہ معاہدے میں غیر ملکی افواج پر حملے روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔