اسلام آباد — پاکستان کی حکومت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک سال کی مدت مکمل کرلی ہے۔ مبصرین کے مطابق عدلیہ اور حکومت میں کشیدگی کم ہوئی ہے جب کہ حکومت نے ایک برس میں معاشی میدان میں کسی حد تک استحکام حاصل کیا ہے البتہ کئی شعبوں میں اسے مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ برس تین مارچ کو قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے عہدے پر انتخاب ہوا تھا۔ شہباز شریف 201 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب جب کہ عمرایوب خان 92 ووٹ لے سکے تھے۔
شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد چار مارچ 2024 کو باضابطہ طور پر کام شروع کیا تھا ۔شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر ایک گھنٹے 24 منٹ تک کی تھی۔لیکن مکمل ہونے والے پارلیمانی سال کے دوران مجموعی طور 95 دنوں کے اجلاسوں میں سے صرف 19 بار اجلاس میں شریک ہوئے۔
مبصرین کے مطابق حکومت کے ایک برس میں پاکستان کے معاشی انڈیکیٹرز میں بہتری آئی ہے ۔26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ اور پارلیمان میں کشیدگی کم ہوئی جب کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب پیش رفت ہوئی ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی گزشتہ ایک برس میں 26 ویں ترمیم اور پیکا ایکٹ کے تحت ہونے والی قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں اور ان کے بقول اس دوران پاکستان میں شہری حقوق اور آزادیٔ اظہار رائے کی صورتِ حال میں بہتری نہیں آئی ہے۔
معاشی کارکردگی
وزرات خزانہ کے سابق مشیر اور معاشی امور کے ماہر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت کے ایک سال کو اسی تناظر میں دیکھیے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے آغاز کے بعد پاکستان کے بڑے اقتصادی اشاریوں میں استحکام دکھائی دے رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ افراطِ زر میں کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ سنبھل گیا ہے جب کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر دو ماہ کی درآمد کے بل کی ادائیگی کے لیے کافی ہیں۔
ان کے مطابق حکومت کو بجلی اور گیس کے شعبوں کی تنظیم نو کرنے میں مشکل درپیش ہے ۔ایک سال میں پیداواری صنعتوں اور تنخوادار طبقے نے تو ٹیکس کے نظام میں زیادہ حصہ ڈالا۔ لیکن حکومت ریٹیلرز ، ہول سیل اور پراپرٹی پر ٹیکس وصولی کرنے کے لیے قابلِ ذکر اقدام نہیں کرسکی۔
ان کے بقول ایک اچھا اقدام چاروں صوبوں میں زرعی ٹیکس سے متعلق ہونے والی قانون سازی ہے ۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ مہنگائی اور شرح سود میں کمی ہوئی ہے لیکن قرض لینے کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی دکھائی نہیں دے رہی۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی جائزہ: چیلنجز کے باوجود پاکستان نئی قسط کے لیے پُرامید کیوں؟وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ندیم الحق نے کہاکہ کبھی کسان کارڈ تو کبھی کوئی اور کارڈ دیا جا رہا ہے۔ پیسے دیے جا رہے ہیں۔ اس وقت وہ سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں جو الیکشن کے سال میں نظر آتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہر حکومت معیشت کے بارے میں دعوے کرتی ہے۔ ان کے بقول موجود ہ حکومت کے پہلے سال میں سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار اور نامور کالم نویس زاہد حسین کا کہنا ہے کہ معیشت میں استحکام نظر آ رہا ہے۔ تاہم معیشت سے صرف وینٹی لیٹر ہٹایا گیا ہے۔ معیشت ابھی بھی آئی سی یو میں ہے۔ کیوں کہ اس وقت بھی مدار دیگر ممالک اور آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض پر ہے ۔
زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مینڈیٹ پر تاحال سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس حکومت کا دار و مدار اسٹیبلشمنٹ پر ہے ۔
ان کے مطابق حکومت کو دہشت گردی کا چیلنج درپیش ہے ۔ملک کے دو صوبوں میں حکومتی رٹ پر سوالات اٹھ رہے ہیں جب کہ سندھ میں نہروں کی تعمیر کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے ۔
SEE ALSO: گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان دوسرے نمبر پر؛ دہشت گردی میں 45 فی صد اضافہایک سابق وفاقی سیکریٹری خزانہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بجلی اور پیٹرولیم کے شعبوں میں کئی چیلنج درپیش ہیں ۔
ان کے مطابق بجلی کی قیمتوں نے مڈل کلاس سے لے کر صنعت کاروں تک کو متاثر کیاہے ۔ فی یونٹ بجلی کی کم سے کم قیمت 48 روپے ہے جب کہ شام پانچ بجے سے رات 10 بجے کے درمیان بجلی استعمال کریں تو فی یونٹ 96 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض حلقوں کے دباؤ کے سبب اسمگلنگ میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
ان کے بقول عام آدمی کو مہنگائی میں کمی اس لیے محسوس نہیں ہو رہی کیوں کہ استعمال کی عام اشیا کی قیمتیں جو پہلے بڑھ رہی تھیں اب صرف ان میں اضافہ رک گیا ہے لیکن قیمتوں میں کمی نہیں آئی۔
’قانون سازی میں عجلت‘
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپئرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے پہلے سال کے دوران زیادہ تر قانون سازی عجلت میں ہوئی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قانون سازی کی ۔
SEE ALSO: اخبارات میں پنجاب حکومت کے اشتہارات کی بھرمار؛ 'جو صرف اخبار پڑھتے ہیں وہ کہاں جائیں'ان کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان مساوات کی تبدیلی کے لیے لائی گئی لیکن توازن کچھ زیادہ پارلیمنٹ کے حق میں ہوگیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اور دیگر سروسز چیفس کی مدت بڑھا کر پانچ سال کی گئی ہے۔ اس مدت میں مزید توسیع بھی قانون کے مطابق ہوسکتی ہے۔ یہ فوجی قیادت کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بنانے کا فلسفہ لگتا ہے ۔
حکومت کے دعوے
منگل کو حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں مختلف وفاقی وزرا نے اپنی وزارتوں کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی تھی اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ آج پاکستان نہ صرف ڈیفالٹ سے نکل آیا ہے بلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے اقتصادی اشاریے استحکام کی سمت میں گامزن ہیں۔
انہوں نے اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لیے بغیر تنقید کی کہ جب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو اس وقت کون آئی ایم ایف کو خطوط لکھ رہا تھا کہ پاکستان کے لیے پروگرام منظور نہ کیا جائے۔ان کے مطابق اس سے بڑی ملک دشمنی نہیں ہو سکتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے معاشی بہتری کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ۔ ان کے مطابق دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر ترقی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا تو ملک میں سرمایہ کاری آئے گی۔
SEE ALSO: موت کا سفر: پاکستانی نوجوان یورپ جانےکیلئے مرنے تک کوکیوں تیار ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے مہنگائی کی شرح 28 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 1.6 فی صد پر آ گئی ہے۔ان کے بقول برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے۔ آئی ٹی برآمدات اور ترسیلات زر میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ ایک سال میں اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی بھی اسکینڈل سامنے نہیں لا سکی۔
’حکومت کے اعداد و شمار غلط ہیں‘
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمرایوب خان کا حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے حوالے کا کہنا تھا کہ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت اپنی ناکامی کا اظہار کر رہی ہے۔ ان کے مطابق لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ سکڑ گیا ہےاور حکومت کے افراطِ زر سے متعلق اعداد و شمار غلط ہیں۔
اپنے بیان میں اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریکِ انصاف کے دور میں بجلی کا فی یونٹ 17 روپے کا تھا آج یہ 85 روپے کا ہے۔ گیس 400 فی صد مہنگی ہو چکی ہے ۔ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔
ان کے مطابق حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ بلوچستان میں حالات تشویش ناک ہیں اور ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بھی اچھی نہیں۔