امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات 2020 کے غیر حتمی نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جوبائیڈن کی افغان پالیسی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سے مختلف ہو گی۔
اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ نو منتخب صدر کی پیرس ماحولیاتی تبدیلی معاہدہ، ایران جوہری معاہدہ، عالمی ادارۂ صحت، نیٹو، چین اور افغانستان کے حوالے سے حکمتِ عملی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی نسبت خاصی مختلف ہو گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ حالیہ امریکی انتخابات کا بڑا موضوع نہیں تھا اور دونوں سیاسی جماعتوں - ری پبلکن اور ڈیموکریٹس- افغانستان کے حالات سے واقف ہیں اور بڑی حد تک دونوں جماعتوں کے لیے افغان پالیسی ایک ہی تھی البتہ طریقہ کار میں معمولی اختلاف تھا۔
کابل میں مقیم سینئر صحافی اور تجزیہ کار صفت صافی کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول جو بائیڈن آٹھ سال بطور نائب صدر رہنے کے دوران افغانستان کا متعدد مرتبہ دورہ کر چکے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ نہ صرف افغانستان کے مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ افغانستان میں تمام دھڑوں سے بھی واقف ہیں۔
SEE ALSO: امید ہے جو بائیڈن افغان امن معاہدے کو برقرار رکھیں گے: طالبانوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صفت صافی نے کہا کہ امریکی انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ اور بائیڈن افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی پر متفق تھے۔
اُن کے بقول وہ امید رکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے دور میں جو باہمی معاہدے ہوئے تھے امریکہ اس کی پاسداری کرے گا۔ کیوں کہ ان معاہدوں سے افغانستان سمیت پورے خطے کا امن وابستہ ہے۔
صفت صافی کے مطابق افغانستان میں عام شہری ہوں یا حکومتی حلقے وہ افغان سرزمین پر بیرونی طاقتوں کے قیام کے حامی نہیں۔ ان کے بقول بیرونی فورسز محدود پیمانے پر افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کی معاونت اور تعمیر نو کے حوالے سے ہی رہ سکتی ہیں۔
افغان تجزیہ کار کہتے ہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اب تک افغانستان کے بارے میں لانگ ٹرم پالیسی واضح نہیں ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں قیامِ امن اور طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو کس سمت میں آگے بڑھاتی ہے۔
صفت صافی کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پورے افغانستان میں جنگ چھڑی ہوئی ہے اور حالات بہت خراب ہیں۔ ایسے میں تمام افغانوں کے لیے افغانستان میں قیام امن سب سے اہم ہے اور اس عمل میں پاکستان اور امریکہ کا کردار بہت اہم ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینئر تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لیے اب تمام نگاہیں جو بائیڈن کی پالیسی پر مرکوز ہیں کہ آیا وہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے فوری طور پر افغانستان سے تمام افواج نکالتے ہیں یا وہ اس سلسلے میں کوئی نئی پالیسی سامنے لاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن بھی امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے حق میں ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو بالکل بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے۔
ان کے بقول جو بائیڈن چاہیں گے کہ افغانستان کو اس حالت میں چھوڑا جائے کہ وہاں امن قائم ہو اور القائدہ اور دیگر جنگجو گروہوں کے بارے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات مکمل طور پر دور ہو جائیں۔
یاد رہے کہ رواں برس 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی کی امید کی جا رہی تھی تاہم امن کی کوششوں کے باوجود حالات سنگین صورتِ حال اختیار کر گئے ہیں۔
SEE ALSO: صدر ٹرمپ اور جو بائیدن کی خارجہ پالیسی میں کیا فرق ہے؟صفت صافی کہتے ہیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی کو اب جو بائیڈن کی ٹیم ہی آگے بڑھائے گی اور وہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح کی مراعات صدر ٹرمپ نے طالبان کو دی تھیں وہ صدر بائیڈن دیں گے۔
تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کے مطابق افغانستان میں طالبان کی پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ نو منتخب امریکی صدر کے لیے ہچکچاہٹ کا باعث بنے گی۔
دوسری جانب افغان طالبان نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ جو بائیڈن افغانستان میں طویل امریکی جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے معاہدے کو برقرار رکھیں گے۔
طالبان کے دوحہ میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ طالبان مستقبل میں امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں۔
SEE ALSO: کابل یونیورسٹی پر حملے میں طلبہ سمیت 19 ہلاکتیں، تین حملہ آور بھی مارے گئےترجمان کے بقول وہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قائم ہیں اور اسے افغان مسئلے کے حل کے لیے ایک اہم اور مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سمیع یوسف زئی سمجھتے ہیں کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی سوچ افغانستان کے حوالے سے قدرے مختلف ہو گی۔ اگر طالبان اور افغان حکومت کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں بصورتِ دیگر امریکہ کے لیے افغانستان سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
اس وقت قطر میں طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے اراکین کے درمیاں گزشتہ دو ماہ سے بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔ فریقین کے درمیان پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ نہیں چاہے گی کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی آماج گاہ بنے کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف پورا خطہ بلکہ پوری دنیا کے لیے افغانستان خوف کا مرکز بن جائے گا۔