طالبان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے 'نومنتخب صدر' جو بائیڈن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ افغانستان میں طویل امریکی جنگ کے خاتمے کے معاہدے کو برقرار رکھیں گے۔
طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ افغانستان اور امریکہ دونوں ہی کے مفاد میں ہے۔ ان کے بقول اس معاہدے پر اسی طرح عمل درآمد ہونا چاہیے جس پر فریقین نے اتفاق کیا تھا۔
یاد رہے کہ 29 فروری کو طے پانے والے مشروط معاہدے کے تحت امریکی اور نیٹو فورسز کو مئی 2021 تک افغانستان سے مکمل انخلا کرنا ہے اور طالبان اس عرصے کے دوران غیر ملکی افواج پر حملے نہ کرنے کے پابند ہیں۔
اس معاہدے کے بعد سے اب تک امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد 13 ہزار سے کم کر کے 4500 کر دی ہے جب کہ امریکی فوجیوں نے افغان فورسز کی متعدد بیسز بھی خالی کر دی ہیں۔
طالبان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے خواہش مند ہیں جب کہ صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کرسمس سے قبل امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو جائے۔
طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ "ہمیں توقع ہے کہ افغان امن عمل اور امریکہ کی حکومت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اسی تسلسل سے جاری رہے گا۔"
دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں امریکہ کا صدر منتخب ہونے پر جو بائیڈن کو مبارک باد دی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ کابل اور واشنگٹن کے درمیان انسدادِ دہشت گردی اور امن کے لیے روابط مزید مضبوط ہوں گے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں افغان حکومت شامل نہیں تھی۔ البتہ معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بعض امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں تاہم فریقین کے درمیان دوحہ میں 12 ستمبر سے بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب افغان امور کےبعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ اور نو منتخب صدر جو بائیڈن دونوں افغان امن عمل اور افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے حامی ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کے بقول جو بائیڈن افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے بتدریج اور منظم انخلا کے خواہاں ہیں، تاہم تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا تو فوجی انخلا کا عمل سست ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے متعلق بائیڈن اور ٹرمپ کی پالیسی میں کوئی اُصولی اختلاف نہیں ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ آئندہ بھی امریکہ کی افغان پالیسی میں تسلسل رہے گا اور اس میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ اُن کے بقول دوحہ معاہدہ برقرار رہے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب دیکھنا ہو گا کہ بین الافغان مذاکرات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ رواں سال فروری میں طے پانے والے معاہدے کے تحت آئندہ 18 ماہ کے دوران افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا مکمل ہونا ہے لیکن یہ عمل بین الافغان مذاکرات سے مشروط تھا۔
تاہم تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے اس معاہدے کے تحت افغانستان سے بتدریج امریکی فورسز کا انخلا جاری ہے اور اب صرف 4800 امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ موسم بہار تک ان کی تعداد 2000 ہو جائے گی اور لگتا ہے کہ بائیڈن کی بھی یہی پالیسی ہو گی۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ جو بائیڈن افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ لہذٰا امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ وہ داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کی بھی ہدایت دے سکتے ہیں۔
ان کے بقول جو بائیڈن چاہیں گے کہ افغانستان میں ایک ایسا سیاسی تصفیہ ہو جس میں انسانی حقوق کی پاسداری ہو، جمہوری اور خواتین کے حقوق کا احترم ہو۔
ان کے بقول وہ یہ بھی چاہیں گے کہ طالبان ایک سیاسی تصفیے کی طرف آئیں۔ طالبان کو تشویش ہے کہ شاید صدر ٹرمپ کے ساتھ امریکی فورسز کے انخلا کا معاہدہ زیادہ آسانی سے ہو گیا لیکن شاید اب جو بائیڈن امریکی فورسز کے انخلا سے متعلق وہ پالیسی نہ رکھتے ہوں جو صدر ٹرمپ کی ہے۔
تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا خیال ہے کہ شاید جو بائیڈن انخلا کے حق میں ہیں لیکن وہ کچھ فوج افغانستان میں رکھنا چاہیں گے۔ لہذٰا یہ صورتِ حال طالبان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گی اور وہ اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھنے کو ترجیح دیں گے۔