امریکی ووٹروں کے لیے صدارتی امیدواروں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان مختلف قومی اور بین الاقوامی مسائل پر امتیاز کرنا نسبتاً آسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ دونوں کے طرز سیاست اور منشور ایک دوسرے سے واضح طور پر الگ الگ ہیں۔
ری بپلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں ان رہنماوں کے نظریات اور خیالات سے یہ اندازہ لگانا بھی آسان ہے کہ وہ امریکہ کو آئندہ چار سالوں میں کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔
عمومی طور پر صدر ٹرمپ نے اپنے وعدوں کے مطابق حکومتی عمل داری کو ایک غیر روایتی انداز میں چلایا ہے۔ ایسا ان کے اندرونی اور بیرونی مسائل پر اپنائی گئی پالیسیوں سے عیاں ہے۔
بیرونی طور پر انہوں نے امریکہ پہلے کی بنیاد پر واشنگٹن کے دیرینہ اتحادی ممالک سے تعلقات کو جانچا ہے۔ اندرونی سطح پر انہوں نے اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اس کو کئی بار استعمال کیا جس کی بنا پر انہیں وفاقی عدالتی نظام کے سامنے رکنا پڑا۔
ان کے مقابل بائیڈن نے ترقی پسند پالیسیوں کی بنیاد پر اپنی مہم کو چلایا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں ایسی روایتی سیاست کو واپس لائیں گے جس کا انحصار سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کم اور عوامی جلسوں اور تفصیلی بحث و مباحثوں اور قانون سازی پر زیادہ ہو۔
کروناوائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی
کروناوائرس کے اثرات جن میں بڑی تعداد میں امریکیوں کی اموات اور روزانہ بڑھتے ہوئے کیسوں کی بلند ترین سے شرح یہ بات ظاہر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ ویکسین کی تیاری اور علاج پر مرکوز ہے نہ کہ اس مرض منتقل ہونے کی شرح میں کمی سے۔
اتوار کو وائٹ ہاؤس کے چیف آف دی اسٹاف مارک میڈوز نے کھل کر کہا کہ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ وائرس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے چہرے پر ماسک پہننےکو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ جب کہ صحت عامہ کے ماہریں کہتے ہیں کہ اس تدبیر سے کووڈ-19 کے کیسوں میں کمی کی جا سکتی ہے اور زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
دوسری طرف بائیڈن ویکسین اور علاج کی تیاری کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن وہ وفاقی حکومت کی طرف سے وائرس کے پھیلاؤ کی کوششوں کی کوششوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ چہرے کا ماسک قانونی طور پر جائز اور بچاؤ کی ایک ضروری تدبیر ہے۔
دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ وہ اسکولوں کے کھولے جانے کے حق میں ہیں۔ البتہ بائیڈن اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اسکولوں کو بحفاظت کھولے جانے میں وفاقی حکومت کو امداد دینی چاہیے۔ جب کہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایسے اسکول جو دوبارہ کھولے نہیں جا رہے ان کی امداد روک لینا چاہیے۔
ماحولیاتی تبدیلی
اگرچہ صدر ٹرمپ اکثر یہ کہتے ہیں کہ تمام امریکیوں کو پینے کے صاف پانی اور صاف فضا میسر ہونا چاہیے، انہوں نے فاصل فیول یعنی معدنی ایندھن کے استعمال میں کمی کے لیے خاطر اقدامات نہیں کیے۔ حالانکہ ایسا کرنا صاف فضا اور صاف پانی کے حصول کے لیے ضوری سمھجا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے 2015 میں ہونے والے پیرس کلائمیٹ اکارڈ یعنی ماحولیات کے عالمی معاہدہ سے امریکہ کو الگ کر دیا اور امریکہ میں تیل کی دریافت اور کوئلہ نکالنے کے لیے سہولتی اقدامات کیے ہیں۔
اس کے برعکس بائیڈن نے فضا میں زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے دو ٹریلین ڈالر کے ایک منصوبہ کی تجویز دی ہے تا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکا جا سکے۔ ان کے منصوبے کے تحت 2035 تک امریکہ ایسے طریقہ سے بجلی پیدا کر سکے گا جس سے کاربن کا اخراج نہ ہو۔
ہر چند کہ بائیڈن نے ترقی پسند ڈیموکریٹس کی تجویز کردہ گرین نیو ڈیل کو اپنایا تو نہیں، مگر وہ اس کے کچھ حصوں کی حمایت کرتے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ برقی گاڑیاں بنانے میں عالمی مارکیٹ کا لیڈر بنے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو پھر سے پیرس ماحولیاتی معاہدہ کا پابند بنا دیں گے۔
قانون کا نفاذ اور نسلی تعلقات
گزشتہ ایک سال میں امریکی افریقی شہریوں کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت نے کئی شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے بدامنی پھیلا دی ہے۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ وہ کلی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
وہ ایسی پالیسیوں کی وکالت کرتے ہیں جن کے تحت پر تشدد مظاہرین سے سختی سے نمٹا جائے۔
اس کے مقابلے میں بائیڈن نے اپنی پالیسی کو متوازن خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ قانون نافذ کرنے کی حمایت، دونوں اطراف سے کیے جانے والے تشدد کی مذمت، اور وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی قانون کے نفاذ میں درمیان ایک باریک سی متوازن لکیر پر اپنی پالیسی کو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صحت عامہ
جہاں تکی صحت عامہ کی بات ہے تو ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے استدعا کر رکھی ہے کہ اوباما کے دورمیں پاس کیے گئے صحت کی انشورنس کے پروگرام جسے ایفوڈایبل ہیلتھ کیئر یا اوباما کیئر کے نام سے جانا جاتا ہے، کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
اس پلان کی جگہ صدر ٹرمپ نے بارہا وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک بہتر اور سستا پلان لائیں گے لیکن ابھی تک کسی نعم البدل پروگرام کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
ادھر بائیڈن جو اس پلان کے نفاذ کے وقت امریکہ کے نائب صدر تھے، چاہتے ہیں کہ اس پروگرام کو اس انداز سے مزید پھیلایا جائے کہ لوگوں کو یہ عام سہولت حاصل ہو کہ اگر وہ چاہیں وہ میڈی کیئر جیسے پلان کو اپنا سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈی کیئر کی سہولت کے لیے موجودہ 65 سال کی مقررہ عمر کو کم کر کے 60 کر دیں گے۔
حکومتی ٹیکسوں کا معاملہ
صدرٹرمپ نے انتخابی مہم میں اکثر 2017 میں ٹیکسوں کے چھوٹ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے مستقبل میں ٹیکسوں کی شرح میں مزید کمی کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں کی سٹاک مارکیٹ میں بانڈ بیچنے سے ہونے والے فائدے کی آمدنی پر بھی ٹیکس میں کمی کرنا چاہتے ہیں۔
وہ سٹیمولس پیکیج کے ایک جزو کے طور ہر تنخواہوں کے پے رول ٹیکس کو موخر کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پے رول ٹیکس کی کٹوتی امریکیوں کے سوشل سیکیورٹی کے ذردیعے دیے جانے والے فنڈ میں جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کی نظر میں ریٹائرمنٹ کے فنڈ کا یہ پروگرام خطرے میں پڑ گیا ہے۔
اس کے مقابل بائیڈن نے کھلم کھلا کہہ رکھا ہے کہ وہ امرا اور کارپوریشنوں پر عائد ٹیکسوں کی شرح کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2017 کی قانون سازی کے تحت دی گئی ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کردیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ سالانہ چار لاکھ ڈالر کمانے والے افراد پر عائد ٹیکس کی شرح میں ہی اضافہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ کارپوریٹ ٹیکس میں 21 سے 28 فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔
تجارت
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں آنے کے بعد ایک ایسی تجارتی پالیسی اپنائی ہے جس کی بنیاد ماضی میں کیے گئے کثیر الاقومی معاہدوں کی بجائے دو طرفہ بات چیت پر ہے۔ انہوں نے چین جیسے ملکوں پر سزا کے طور پر برآمدات پر بڑے ٹیکس عائد کیے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان جیسے ملکوں نے امریکہ سے منصفانہ اندز میں تجارت نہیں کی۔
لیکن ان کے بیانات کے برعکس ان امریکی صارفین پر ٹیکس ہے جو تجارتی پالیسی سے متاثرہ ملکوں سے اشیا خریدنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کامیابی سے نارتھ امریکن فری ٹریڈ اگریمنٹ یعنی نافٹا کو پھر سے ممبر ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ تبدیل کیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں چین سے طویل عرصے سے جاری تعلقات کی بہتری کے لے مذاکرات کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔
بایئڈن کہتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے شروع کے اقدامات میں کثیرالاقوام تجارتی معاہدہ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کی بحالی ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے بڑھائے گئے تجارتی نرخوں کا ازسر نو جائزہ لیں گے۔
وفاقی عدالتیں
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ری پبلیکن اکثریت کی سینیٹ کے ساتھ مل کر وفاقی عدالتوں میں سینکڑوں قدامت پسند سوچ کے ججوں کی تا حیات تعیناتی کی ہے۔
جج ایمی کونی بیریٹ کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر منظوری سے اب قدامت پسند سوچ رکھنے والے ججوں کی سپریم کورٹ میں تین کے مقابلے میں چھ سے برتری ہو گئی ہے۔
ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ ری پبلیکن سینیٹ نے غیر منصفانہ طور پر عدالتوں کو قدامت پسند ججوں سے بھر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے انہوں نے صدر اوباما کے نامزد ججوں کی منظوری کو روکے رکھا اور پھر2016 میں اوباما کے سپریم کورٹ کی خالی سیٹ پر نامز جج کے کے طریقہ کار کو روکے رکھا۔
ڈیموکریٹ اب اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ اس سال نومبر تین کے انتخابات سے محض آٹھ روز قبل بیرٹ کی بطور سپریم کورٹ جج منظوری کے بعد ان کی پارٹی کی جیت کی صورت میں آنے والی بائیڈن انتظامیہ کو سپریم کورٹ کی موجودہ تعداد کو نو سے بڑھا کر اس میں نئے ججوں کا اضافہ کرنا چاہیے۔
بایئڈن نے اس خیال کی کھل کر حمایت نہیں کی اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک کمشن سے کہیں گے کہ وہ اس خیال کی جانچ پڑتال کریں۔
قومی سلامتی
صدر ٹرمپ کی قومی سلامتی کے حوالے سے سوچ الگ تھلگ رہی ہے۔ انہوں نے امریکی فوج کو بجٹ میں اضافے کے ذریعہ مضبوط کیا ہے جب کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کی ہے۔ ان جگہوں میں تنازعات کے حامل افغانستان اور عراق جیسے ممالک اور امریکی حلیف جنوبی کوریا اور جرمن بھی شامل ہیں۔
ان کے دعوں نے کہ نیٹو کے دوسرے ممالک امریکہ کے مقروض ہیں اور یہ کہ امریکہ اپنے وعدے پورے نہیں کرے گا، ان ملکوں سے کئی عشروں کے اتحاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف بائیڈن ایک مضبوط امریکی فوج رکھنے کی حمایت کرتے ہیں اور بیرون مملک مقامات پر سوچے سمجھے انداز میں امریکی افواج کی تعیناتی کے حق میں ہیں۔
بائیڈن جو کہ ایک وقت میں سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں، امریکہ کے بہت سے اتحادی رہنماؤں کے ساتھ مضبوظ تعلقات رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان تعلقات کی تعمیرنو کریں گے۔