تین نومبر کو ہونے والا صدارتی انتخاب گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں غیر معمولی حالات میں منعقد ہو رہا ہے جس کی بنا پر سیاسی تجزیہ کاراور ماہرین نتائج کے حوالے سے مختلف صورت احوال کے متعلق اظہارِ خیال کر رہے ہیں
خاص طور پر یہ بات کی جا رہی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن میں سے کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہیں کر پاتا تو اس سلسلے میں قانونی اور آئینی تقاضے کیا کہتے ہیں۔ اور یہ کہ ایسی صورت میں قانونی چارہ جوئی اگر جنوری تک کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچتی تو کیا ہو گا کیونکہ جنوری میں کانگریس انتخابات کے نتائج کی توثیق کرتی ہے۔
2020 کے الیکشن میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر ووٹروں کی ایک بڑی تعداد الیکشن کے دن سے پہلے ڈاک کے ذریعہ ووٹ ڈال رہی ہے۔
الیکشن کے دن سے پہلے کی ووٹنگ کو ارلی ووٹنگ کہا جاتا ہے۔ لیکن مختلف امریکی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کے مختلف انداز اور طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں، جس کی بنا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ بعض مقامات پر ووٹوں کی گنتی میں کئی دن اور کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
اس تناظر میں سیاسیات کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹشن سے وابستہ ماہر ولیم گالسٹن کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہیں کرتا تو ایک بھیانک منظر بنے گا جس میں انتخابات کے نتائج پر شکوک و شبہات ہوں گے اور ملک پہلے ہی سے موجود مشکل حالات میں ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے بارہا اس امکان کے متعلق بات کی ہے کہ ڈاک کے ذریعہ بڑے پیمانے پر ووٹ ڈالنے سے الیکشن فراڈ کا اندیشہ ہے اور انہوں نے اس صورت میں پرامن انتقال اقتدار کا الیکشن سے پہلے وعدہ کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ دوسری طرف بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر ووٹوں کی گنتی درست ہوتی ہے تو وہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے۔
انتخابات کے متنازع ہونے کی صورت میں، تجزیہ کاروں کے مطابق، ملک میں سیاسی افراتفری جنم لے سکتی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ الیکشن کی رات ہی نتائج پر پہنچا جائے اور ایسا ہونا عین ممکن ہے۔
آخر اتنی پیچیدگیاں کیوں ہیں؟
حالیہ سروے اور پول بتاتے ہیں کہ ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر اس وقت نو سے دس پوائنٹ کی برتری حاصل ہے، لیکن امریکی صدارت کا فیصلہ قومی پاپولر ووٹ پر نہیں ہوتا۔ صدر کے چناؤ کا فیصلہ ایک ایسے نظام کے ذریعے ہوتا ہے جس کے دو مراحل ہیں۔ اس نظام کے تحت ریاست کی سطح پر ڈالے گئے ووٹوں کے بعد الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے اور پھر یہ الیکٹورل کالج یا ڈیلیگیٹس صدر کو منتخب کرتے ہیں۔
امریکی نظام کے تحت ہر ریاست میں اس کی آبادی کے تناسب سے ڈیلیگیٹس کی تعداد مخصوص ہے اور جس ریاست میں جس جماعت کو کل ووٹوں میں برتری حاصل ہوتی ہے، اس ریاست میں اسی پارٹی کے تمام ڈیلیگیٹس کامیاب تصور ہوتے ہیں۔ یعنی عام عوام کے ووٹ سے یہ الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے۔
اس سلسلے میں مین اور نیبراسکا کی ریاستوں میں امیدواروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہاں کے الیکٹورل ووٹوں کو تقسیم کر لیں۔
ریاستوں میں انفرادی طور پر قومی پول ظاہر کرتےہیں کہ صد ٹرمپ پاپولر ووٹ میں اکثریت حاصل کیے بغیر بھی دوبارہ صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ٹرمپ 2016 میں بھی پاپولر ووٹوں میں پیچھے تھے لیکن زیادہ الیکٹورل کالج کے ذریعہ فتح یاب ہوئے تھے۔
الیکٹورل کالج کا اجلاس 14 دسمبر کو بلایا جاتا ہے تاکہ یہ تعین ہو سکے کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا۔
کامیاب امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ وہ 538 میں سے 270 ووٹ حاصل کریں۔ کانگریس ان ووٹوں کا جنوری کی چھ تاریخ کو ہونے والے ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں سرکاری طور پر شمار کرتی ہے۔
اگرچہ کئی ریاستیں ووٹ گننے کا عمل دنوں اور ہفتوں میں مکمل کرتی ہیں لیکن اس بات کی توقع ہے کہ ایسی ریاستیں جن کا ووٹ انتخابات کے نتائج مرتب کرنے میں فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے وہ الیکشن کی رات یا علی الصبح نتائج مرتب کر کے ان کا اعلان کر دیں گی۔
ان ریاستوں میں سب سے اہم ریاست فلوریڈا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2016 میں اس ریاست میں کامیابی حاصل کی تھی جب کہ اس سال دونوں امیدواروں کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔
اگر بایئڈن فلوریڈا میں کامیابی حاصل کر کے 29 الیکٹورل ووٹ حا صل کر لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ٹرمپ کے جیتنے کے تقریباً تمام راستے بند ہو جائیں گے۔
شمالی کیرولائینا اور ایریزونا جن کے بلترتیب 15 اور 11 ووٹ ہیں کئی طرح کی صورتوں میں اہم ثابت ہوں گی جن میں صدر ٹرمپ آگے ہیں۔ ان ریاستوں کے نتائج بروقت متوقع ہیں۔
اس ضمن میں نیویارک یونیورسٹی میں آئینی قوانین کے پروفیسر رچرڈ پلائیڈ پراعتماد ہیں کہ ریاستیں الیکشن کی رات یا اگلے روز علی الصبح نتائج مکمل کرنے کے قابل ہوں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں اگر صدر ٹرمپ فلوریڈا میں ہار جاتےہیں اور ابھی مشی گن اور پینسلوینیا کے حتمی نتائج آنا باقی بھی ہوں تو ہمیں اس بات پر یقین ہوگا کہ بائیڈن الیکشن جیت جائیں گے۔
یار رہے کہ ریاست مشی گن کے 16، پینسلوینیا کے 20 جبکہ وسکانسن کے 10 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
پلائیڈز کہتے ہیں کہ فلوریڈا کے نتائج واضح نہ ہونے کی صورت میں اور اس صورت میں کہ دوسری ریاستں دونوں امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں تو متنازعہ حالات تیزی سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
قانونی معرکے کیسے ہوسکتے ہیں؟
پروفیسر پلائیڈز کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کی رات کے بعد اگلی صبح تک لوگوں کے پولنگ اسٹیشن جائے بغیر ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باعث شمار نہیں ہوپاتی اور نتائج واضح نہیں ہوتے تو توقع ہے کہ ایسی ریاستوں میں غیر حاضر رہ کر ڈالے گئے ہر ووٹ پر جھگڑا ہو گا کہ آیا وہ ووٹ قانونی طور پر درست ہیں یا نہیں۔
الیکشن کے روز سے کانگرس کے چھ جنوری کو ووٹوں کے حتمی شمار کی خاطر ہونے والے اجلاس کے دوران کئی اہم منازل ہوتی ہیں۔
ان میں سب سے پہلی منزل آٹھ دسمبر کو آتی ہے۔ اس تاریخ کو جسے سیف ہاربر بھی کہا جاتا ہے ، ریاستوں کو الیکٹورل ممبروں کی تصدیق شدہ سلیٹوں کو امریکہ میں ریکارڑ رکھنے والی آرکائیو میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ اگر اس تاریخ تک کوئی ریاست کسی جاری قانونی جنگ کی وجہ سے ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں کر پاتی تو وفاقی قانون اجازت دیتا ہے کہ اس ریاست کی مقننہ اجلاس بلا کر حتمی شمار کے بغیر الیکٹورل ووٹوں کی سلیٹ کی منظوری دے دے۔
اس اختیار سے ایسے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں کہ ایک جانبدار مقننہ کسی ایسے امیدوار کی حمایت میں الیکٹورل کی سلیٹ مقرر کر سکے جو بعد میں اس ریاست کے عوامی پاپولر ووٹ ہار جائیں۔
ایسی ریاستیں جہاں گورنر اور مقننہ دو پارٹیوں میں تقسیم ہوں، وہاں ایک اور پیچیدہ پہلو جنم لے سکتا ہے۔
کیونکہ الیکٹورل ممبران کی سلیٹ کی گورنر توثیق کرتا ہےاس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ریاست ووٹ کے بعد دو سلیٹیں جمع کروائے اور دونوں جمع کروائی جانے والی سلیٹیوں کے جائز یا درست ہونے کا دعوی کیا جائے۔
اس سلسلے میں وفاقی قانون کہتا ہے کہ اگر کانگرس کو کسی ایک ریاست کی طرف سے الیکٹورل ووٹوں کی دو سلیٹیں مہیا کی جایئں تو ایوان نمائیندگان اور سینیٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
اگردونوں ایوان کسی ایک سلیٹ کے چناو پر راضی ہوں تو اسے شمار کے لیے تسلیم کیا جاتا ہے اور اگردونوں ایوان اس پر راضی نہ ہوں تو گورنر کی تصدیق شدہ سلیٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
الیکٹورل کالج میں برابری کی صورت میں کیا ہوسکتا ہے؟
اگرچہ اس کا امکان غالب نہیں لیکن ایسا بھی ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے کہ الیکٹورل ووٹ کی گنتی کے بعد بھی کوئی امیدوار واضح طور پر فاتح نہ ٹھہرے۔
اگر دونوں امیدوار269 یعنی برابر ووٹ حاصل کرتے ہیں تو ایوان نمائیندگان کو فاتح کافیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
لیکن ایسا کرتے وقت ایوان کے 438 نمائندے انفرادی طور پرووٹ نہیں ڈالتے۔ بلکہ ہر ریاست کے نمائیندے مل کرے ووٹ ڈالتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ریاست میں اکثریت کے لحاظ سے غالب پارٹی اس ووٹ کا فیصلہ کرتی ہے۔
اس طریقے سے حاصل ہونے والے نتیجے میں چھ لاکھ نفوس پر مشتمل وایومنگ کی ریاست کا بھی اتنا ہی اختیار یا اثرو رسوخ ہوتا ہے جتنا کہ چار کروڑ کی آبادی والی ریاست کیلی فورنیا کا۔
علاوہ ازیں امریکی نطام میں ایک اور جہت یہ بھی ہے کہ صدر کے حامی کچھ الیکٹورلز دسمبر 14 کو ان کے حق میں، ہو سکتا ہے کہ نہ رہیں۔ کچھ مثالیں ایسی ہیں جب الیکٹورل ممبرز نے اپنی جماعت کے بجائے کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کا اعادہ کیا۔
کئی ریاستوں نے قانون سازی کے ذریعہ الیکٹورل ممبرز کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہی ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی عدالت عالیہ نے ان قوانین کو جائز قرار دیا ہے۔ ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ وعدہ کی پاسداری نہ کرنے والے الیکٹورل ممبران الیکشن کے انتخابات پر اثر انداز ہونا چاہتے ہوں۔ لیکن قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کےلیے ضروری ہے کہ کسی الیکشن کا نتیجہ بہت ہی قریب قریب ہو اور الیکٹر ممبران آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ تمام صورت احوال ممکنات میں شامل ہیں اور ان کا وقوع پزیر ہونے کا امکان غالب نہیں۔
نیو یارک یونیورسٹی کے پروفیسر پلایئڈز کہتے ہیں کہ الیکشن کی رات بھی اگر ووٹوں کا مکمل شمار نہیں ہوتا تو یہ بات بہت حد تک واضح ہوگی کہ کون سا امیدوار انتخابات میں کامیاب ہو گا۔
مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ اگر کچھ ریاستیں ووٹوں کو مکمل طور پر نہیں گن پاتیں، تو ان کی کاونٹیاں انفرادی طور ووٹ کا شمار کرچکی ہوں گی۔
ان کے بقول ’’ اس طرح میڈیا 2020 کے نتائج کو ان کاونٹیوں کے 2016 کے نتائج سے موازنہ کر کے جانچ سکتا ہے کہ ٹرمپ اس سال کہاں کھڑے ہیں۔ اور اگر ان کی کارکردگی پہلے کے مقابلے میں مسلسل کم یا بہتر رہتی ہے تو اس سے دیکھا جا سکتا ہے کہ الیکشن کس طرف جا رہا ہے ۔ حالانکہ اس کے ذریعہ کسی امیدوار کو رسمی طور پر کامیاب تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میرے خیال میں ایسی صورت حال سامنے آ سکتی ہے‘‘۔