امریکہ کے صدارتی انتخاب کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن اس سے قبل بھی دو بار صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی نامزدگی کی دوڑ میں شامل رہے ہیں۔
ستتر سالہ بائیڈن قومی سیاست میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں۔ وہ سینیٹر اور پھر آٹھ سال تک سابق صدر براک اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر کام کر چکے ہیں۔ 20 جنوری 2021 کو اپنی متوقع حلف برداری کے وقت اُن کی عمر 78 برس ہو گی اور یوں وہ امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہوں گے۔
بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور وہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کو رخصت کرنا ہے کیوں کہ ان کے بقول صدر ٹرمپ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔
اپنی ویب سائٹ پر جو بائیڈن نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ "ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم کون ہیں۔ ہم امریکی ہیں، سخت جان، جلدی سے ابھرنے والے اور ہمیشہ پر امید رہنے والے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے عزت سے پیش آنا چاہیے۔"
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب بائیڈن کی مہم کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا۔ اُنہوں نے اپنی زیادہ تر مہم ریاست ڈیلاویئر میں اپنے گھر سے ہی چلائی۔ اور ان کا میڈیا سے براہِ راست انٹرایکشن بھی بہت محدود رہا ہے۔ انہوں نے بڑے سیاسی جلسوں میں شرکت سے بھی احتراز کیا اور مختلف ریاستوں میں ڈرائیو ان ریلیوں سے ہی خطاب کرتے رہے۔
بائیڈن کا سیاسی کریئر
بائیڈن نے ڈیلاویئر یونیورسٹی اور سیراکیوز اسکول آف لا سے ڈگری حاصل کی۔ 1972 میں محض 29 سال کی عمر میں وہ امریکی سینیٹ کے رُکن منتخب ہوئے۔
لیکن اس کامیابی کے کچھ ہی ہفتوں بعد بائیڈن کو ایک خاندانی المیے کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی اہلیہ اور ایک سالہ بیٹی کرسمس کی شاپنگ کے دوران گاڑی کے حادثے میں ہلاک ہو گئیں۔
اس سانحے کے بعد انہوں نے اپنے دو بیٹوں کی دیکھ بھال کی خاطر 36 سال تک روزانہ ڈیلاویئر اور واشنگٹن کے درمیان ٹرین کا سفر کیا تاکہ رات اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکیں۔ اُنہوں نے 2008 میں امریکہ کا نائب صدر منتخب ہونے تک یہ معمول برقرار رکھا۔ بعدازاں وہ واشنگٹن ڈی سی منتقل ہو گئے۔
اپنی بیوی کی ہلاکت کے کئی سال بعد بائیڈن نے جل جیکب ٹریسی سے دوسری شادی کی۔ جل بائیڈن تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔
بائیڈن 1987 اور 2007 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نمائندگی حاصل کرنے کے خواہاں رہے۔ لیکن دونوں بار وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن 2008 میں براک اوباما نے اُنہیں اپنے ساتھ بطور نائب صدر نامزد کیا۔ 2012 میں وہ دوبارہ ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اہم قومی معاملات پر مؤقف
بطور سینیٹر بائیڈن جرائم کی روک تھام اور آتشیں اسلحے پر پابندی سے متعلق قانون تیار کرنے میں شریک رہے۔ یہ پابندی 10 سال، 2004 تک برقرار رہی تاہم اس میں توسیع نہیں کی گئی۔
جو بائیڈن جرائم کے خلاف سخت سزاؤں کے حامی بھی رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں اُنہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی جیلوں میں پہلے سے ہی بہت سے قیدی ہیں۔
بائیڈن خواتین کے خلاف تشدد کا بل کانگریس سے منظور کرانے کو اپنی اہم کامیابی شمار کرتے ہیں۔ یہ بل 1994 سے 2018 تک نافذ العمل رہا تھا۔
جو بائیڈن کے سیاسی کریئر میں 1987 میں سینیٹ میں ہونے والی سماعتوں کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ بائیڈن کی صدارت میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے قدامت پسند جج رابرٹ بورک کی بطور جج نامزدگی کو مسترد کیا تھا۔
بائیڈن کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہیں سے ری پبلکن اور ڈیمو کریٹکس کے درمیان اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کے معاملے پر اختلافات کی خلیج بڑھی۔
خارجہ پالیسی
سینیٹ میں رہتے ہوئے بائیڈن طویل عرصے تک خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن اور دو بار اس کے چیئرمین بھی رہے۔
اُنہوں نے 1991 میں خلیج کی جنگ کی مخالفت کی۔ لیکن 2003 میں عراق پر حملے کی حمایت کی۔ انہوں نے 1994 میں بوسنیا ہرزیگوینا میں امریکی اور نیٹو مداخلت کی بھی حمایت کی۔
بطور نائب صدر بائیڈن نے عراق کے بارے میں امریکی پالیسی تشکیل دینے میں مدد کی جس میں فوج کی واپسی بھی شامل تھی۔ 2011 میں انہوں نے لیبیا میں نیٹو کے زیرِ قیادت فوجی مداخلت کی بھی حمایت کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی خارجہ پالیسی صدر ٹرمپ کے مقابلے میں دیگر ممالک میں عسکری طور پر مداخلت کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ صدر ٹرمپ گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلے امریکی رہنما ہیں جن کے دورِ حکومت میں امریکہ نے کسی نئی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔
جہاں تک انسدادِ دہشت گردی کا تعلق ہے تو کونسل برائے خارجہ امور کے ایک تجزیے کے مطابق بائیڈن امریکہ کی بڑے پیمانے پر عسکری مداخلت کے حق میں نہیں بلکہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے فضائی کارروائیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی
ڈیمو کریٹک پارٹی کے 2020 کے منشور کے مطابق امریکہ کو بھارت کے ساتھ گہرے اسٹرٹیجک روابط استوار کرنے چاہئیں۔
اپنی انتخابی مہم کی ویب سائٹ پر بائیڈن نے بھارت کی جانب سے گزشتہ سال کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد انسانی حقوق کی بحالی پر زور دیا ہے۔
اُنہوں نے بھارت میں متنازع شہریت بل کو ملک کے سیکولر تشخص کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر مایوسی کا بھی اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ ذمہ دارانہ انداز میں وہاں سے امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صحت، اقتصادی شعبوں اور چین، ایران اور نیٹو سمیت کئی خارجہ امور پر ان کی پالیسیاں اوباما دور کا تسلسل ہو سکتی ہیں۔