|
ویب ڈیسک _ یورپی ممالک نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دو گنا اسلحہ درآمد کیا ہے جس میں سے 60 فی صد سے زائد امریکہ سے خریدا جانے والا اسلحہ ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2024 کے دوران یوکرین دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک تھا جب کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر رہا۔
رپورٹ کے مطابق پانچ برس کے دوران امریکہ نے عالمی سطح پر 43 فی صد اسلحہ فروخت کیا جب کہ فرانس نو اعشاریہ چھ فی صد کے ساتھ دوسرا بڑا ایکسپورٹر رہا۔
امریکہ نے یورپی ملکوں کو گزشتہ پانچ برس کے دوران 64 فی صد اسلحہ فراہم کیا جو 2015 سے 2019 کے مقابلے میں 12 فی صد زیادہ ہے۔
سن 2015 سے 2019 کے مقابلے میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ممالک نے 105 فی صد زیادہ اسلحہ درآمد کیا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ کے لیے یورپ اسلحہ کی سب سے بڑی منڈی رہا ہے۔ یورپ نے 24-2020 کے دوران 35 فی صد جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے 33 فی صد امریکی اسلحہ خریدا ہے۔
اگر کسی ایک ملک کی بات کی جائے تو سعودی عرب امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا ہے۔
ایس آئی پی آر آئی سے وابستہ آرمز ٹرانسفر پروگرام کے سربراہ میتھیو جارج کہتے ہیں کہ یورپ کی جانب سے امریکی اسلحہ کی خریداری میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں روس کے خطرے کا سامنا ہے۔
یورپی ممالک کے اسلحہ کی درآمد میں اضافے سے متعلق یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے پیشِ نظر دفاعی صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔
یورپی یونین کی ایگزیکٹو برانچ نے یونین کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے 841ارب ڈالر کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس کا مقصد صدر ٹرمپ کی جانب سے یورپ کے دفاع میں مدد سے ممکنہ علیحدگی کے اثرات کم کرنا تھا۔
سینئر ریسرچر پیٹر ویزمین کا کہنا ہے کہ امریکہ سے اسلحہ درآمد میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں نیٹو کے رکن ممالک کے کئی ایسے آرڈرز ہیں جن کے تحت انہیں 500 جنگی جہازوں سمیت دیگر امریکی اسلحہ ملنا باقی ہے۔
'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ویزمین نے کہا کہ اٹلی اور برطانیہ نے امریکہ سے ایف 35 لڑاکا طیاروں سمیت پیٹریاٹ اینٹی ایئر ڈیفنس سسٹم خرید رکھا ہے جو کہ بہت پیچیدہ نظام ہے اور اسے فوری طور پر تبدیل کرنا بہت مشکل عمل ہے۔
SEE ALSO: یورپی یونین کا دفاع مضبوط کرنے کے 800 ارب یورو کے منصوبے پرغورانہوں نے کہا کہ بیلجئم، نیدرلینڈز اور ڈنمارک جیسے ممالک کا انحصار امریکی اسلحہ پر ہے اور دفاعی صلاحیت میں تبدیلی کے لیے نہ صرف بھاری سرمایہ درکار ہو گا بلکہ اس کے لیے سیاسی سرمایہ کاری بھی کرنا ہو گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ کے مستقبل سے متعلق حالیہ بیانات کے بعد بیلجئم، نیدرلینڈز اور ڈنمارک کی امریکہ کے ساتھ سفارتی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
ویزمین کہتے ہیں کہ اسلحہ کی خریداری کے عمل میں برسوں لگتے ہیں اور بعض اوقات تو امریکی صدر کی مدتِ صدارت مکمل ہونے سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔
فرانس اور روس
فرانس کی جانب سے یورپ کو اسلحہ کی برآمد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ فرانس نے یونان اور کروشیا کو رافیل لڑاکا طیارے فروخت کیے ہیں جب کہ یوکرین کو بھی کئی دیگر ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
فرانس کے لیے اسلحہ کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی بھارت رہا۔ یورپی ممالک کے مقابلے میں فرانس نے صرف بھارت کو 28 فی صد اسلحہ فروخت کیا جو یورپی ملکوں کو فروخت کردہ اسلحہ کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے۔
روس بدستور تیسرا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس نے 64 فی صد کم اسلحہ فروخت کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ تیسرا بڑا ایکسپورٹر بن کر سامنے آیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: جنگی طیاروں کی کمی پوری کرنے کے لیے نجی سیکٹر کی خدمات لینے کا فیصلہ، معاملہ کیا ہے؟یوکرین جنگ کی وجہ سے اسلحہ کی اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے علاوہ روس کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کے خریدار دوسری منڈیاں تلاش کر رہے ہیں۔
بھارت نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوان روس سے 38 فی صد اسلحہ خریدا لیکن اب ماسکو پر پابندیوں کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔اسی طرح چین نے روس کی کُل برآمدات کا 17 فی صد اسلحہ خریدا تھا اور اب وہ اپنی انڈسٹری لگا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔