کرم میں جنگ بندی کے باوجود بعض راستے بند، اشیائے ضروریہ کی قلت

  • کرم میں جنگ بندی کے باوجود اشیائے خورونوش کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
  • پاڑہ چنار صدہ اور دیگر علاقوں میں اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے۔
  • لوگ متحارب گروپس کے علاقوں سے گزرنے والے راستے استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔

پشاور -- افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم میں متحارب فریقوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد صورتِ حال پرامن ہے، لیکن پاڑہ چنار اور صدہ سمیت مختلف علاقوں میں اشیائے خورونوش کی فراہمی کا سلسلہ تاحال معطل ہے۔

ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے ترسیل کی معطلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد زندگی معمول پر آ رہی ہے۔ ضلع بھر کے تمام سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاڑہ چنار اور صدہ سمیت متعدد دیہات اور دیگر تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ علاقے میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔

پاڑہ چنار کے رہائشی عدنان حیدر کہتے ہیں کہ پاڑہ چنار ٹل مین روڈ اور پاک، افغان خرلاچی بارڈر ہر قسم کی آمدورفت اور تجارت کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پاڑہ چنار صدہ اور دیگر علاقوں میں اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں کی صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے جہاں گیس، چینی اور دیگر اشیا کی قلت ہے۔ لکڑی کی بھی کمی ہے۔

جاوید اللہ محسود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاڑہ چنار اور صدہ سمیت متعدد علاقوں کو پشاور اور کوہاٹ سے اشیائے خوردنی اور دیگر اشیا کی ترسیل کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

'لوگ متحارب گروپس کے علاقوں سے گزرنے والے راستے استعمال نہیں کر رہے'

صدہ سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی محمد جمیل کا کہنا ہے کہ ضلع کے مختلف علاقوں اور راستوں کو آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے مگر متحارب فریقوں کے علاقوں سے گرزنے والے راستوں کو لوگ استعمال نہیں کر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ تو متبادل راستے اختیار کر لیتے ہیں، لیکن ان مشکل راستوں سے سامان کی رسد بہت مشکل ہے۔

جاوید اللہ محسود کا مزید کہنا تھا کہ فائر بندی کے بعد متحارب فریقوں نے مورچے خالی کر دیے ہیں اور اب وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کا کنٹرول ہے۔ لیکن اب بھی کچھ چھوٹے مورچے موجود ہیں جہاں مسلح افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ تنازع کے مستقل حل کے لیے جرگہ ممبران کے آپس میں صلاح مشورے جاری ہیں اور جمعے کو مثبت پیش رفت کی توقع ہے۔

جاوید محسود کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ کرم کی دو سرحدی گزرگاہیں ہیں جو گزشتہ کئی ماہ سے تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند ہیں۔