رسائی کے لنکس

مستقبل کے ماحولیاتی اجلاسوں میں افغانستان کی شرکت ضروری ہے: طالبان اہل کار


 افغانستان کی نیشنل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، مطیع الحق خالص، COP29 کانفرنس میں۔ فائل فوٹو
افغانستان کی نیشنل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، مطیع الحق خالص، COP29 کانفرنس میں۔ فائل فوٹو

  • فغان وفد باکو مذاکرات میں کسی فریق کے طور پربراہ راست شامل نہیں ہوا تھا بلکہ اسے میزبان ملک آذربائیجان کے "مہمان" کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
  • اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی افغان وفد نے ماحولیات سے متعلق عالمی اجلاس میں شرکت کی تھی.
  • افغانستان کی "نیشنل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی" کے ڈائریکٹر جنرل، مطیع الحق خالص نے کہا، "افغانستان کو مستقبل میں ایسی کانفرنسوں میں شرکت کرنی چاہیے۔"
  • عالمی درجہ حرارت میں کم سے کم اخراج کے باوجود، افغانستان ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں گلوبل وارمنگ کے اثرات کا سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔

اتوار کے روز افغان ماحولیات کے ایک اہلکار نے باکو میں COP29 کانفرنس سے واپسی کے بعدجہاں طالبان حکام نے پہلی بار شرکت کیتھی، کہا ہےکہ ملک کو مستقبل کے عالمی موسمیاتی مذاکرات میں شرکت کی اجازت دی جانی چاہیے

افغان وفد باکو مذاکرات میں کسی فریق کے طور پربراہ راست شامل نہیں ہوا تھا بلکہ اسے میزبان ملک آذربائیجان کے "مہمان" کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی افغان وفد نے ماحولیات سے متعلق عالمی اجلاس میں شرکت کی تھی، مصر اور متحدہ عرب امارات میں منعقدہ گزشتہ دو COPs اجلاسوں میں انہیں مدعو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کی "نیشنل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی" کے ڈائریکٹر جنرل، مطیع الحق خالص نے کہا، "افغانستان کو مستقبل میں ایسی کانفرنسوں میں شرکت کرنی چاہیے۔"

انہوں نے گزشتہ ماہ مذاکرات میں افغانستان کی شرکت کو ایک "بڑی کامیابی" قرار دیا۔

"ہم نے اس سال کانفرنس میں اس لیے شرکت کی تھی تاکہ ہم ان مسائل کے بارے میں اپنے ملک کیلیے آواز اٹھا سکیں جن کا ہمیں سامنا ہے، لوگوں کی ضروریات کیا ہیں، ہمیں ان چیزوں کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔"

انہوں نے کہا کہ افغان وفد نے روس، قطر، آذربائیجان اور بنگلہ دیش کے وفود سمیت 19 مختلف تنظیموں اور حکومتوں سے ملاقاتیں کیں۔

عالمی درجہ حرارت میں کم سے کم اخراج کے باوجود، افغانستان ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں گلوبل وارمنگ کے اثرات کا سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔

طالبان حکومت کا استدلال ہے کہ ان کی سیاسی تنہائی انہیں بین الاقوامی موسمیاتی بات چیت میں شرکت سے نہیں روک سکتی۔

حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی اپنی توجہیہ کے مطابق شرعی اسلامی قانون کا ایک سخت ورژن نافذ کیا ہوا ہے، جس سے عوامی زندگی میں خواتین کی شرکت کو سختی سے روک دیا گیا ہے۔ اسے اقوام متحدہ نے "صنفی امتیاز" کہا ہے۔

دہائیوں کی جنگ کے بعد دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک افغانستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے دوچار ہے، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ طویل خشک سالی، بار بار آنے والے سیلاب، اور زرعی پیداوار میں کمی سمیت انتہائی شدید موسم کا باعث بن رہی ہیں۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کو سخت موقف میں لچک پیدا کرنے اور بین الاقوامی مذاکرات میں شرکت کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نے 2025 تک موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی اثرات کے بگڑتے ہوئے اثرات سے نمٹنے اور اپنی معیشتوں کو معدنی ایندھن سے چھٹکارا دلانے میں مدد ملے۔

ایجنسی فرانس پریس کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG