پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے اہل کار کے ہاتھوں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
حیات بلوچ نامی طالب علم کو 13 اگست کو اس وقت مبینہ طور پر ایف سی اہل کار نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا جب تربت میں بم دھماکے کے بعد وہ اسی مقام پر اپنے والدین کے ہمراہ موجود تھا۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے کی مذمت کی تھی۔
سوشل میڈیا پر 'جسٹس فار حیات' کے نام سے ٹرینڈ بھی چلتا رہا جس کے بعد پولیس نے واقعے میں ملوث ایف سی اہل کار کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا۔
واقعے کے بعد ایف سی کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ وہ واقعے کی مکمل چھان بین کر رہے ہیں جب کہ مذکورہ اہل کار کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
حیات بلوچ کون تھے؟
حیات بلوچ بلوچستان کے ضلع کیچ کے رہائشی تھے اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فزیالوجی کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔
حیات کرونا وبا کے باعث یونیورسٹی بند ہونے کے بعد گھر میں موجود تھے اور اس روز اپنے والد کے ہمراہ کھجور کے باغ میں کام کر رہے تھے۔
حیات بلوچ کے بھائی نسیم مرزا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہ 13 اگست کا دن تھا میں اور حیات گھر میں موجود تھے اور صبح ہمیں والدین کے لیے ناشتہ باغ میں لے جانا ہوتا تھا اس روز میں نے حیات کو کہا کہ آپ یہ کام کرو۔"
تسنیم کے بقول والد نے باغ ٹھیکے پر لے رکھا تھا اور وہ والدہ کے ساتھ مل کر وہاں کام کرتے تھے کہ اچانک باغ کے قریب زوردار دھماکہ ہوا۔ اُن کے بقول دھماکے کے بعد دو ایف سی اہل کار باغ میں داخل ہوئے اور حیات کو پکڑ کر سڑک پر لے گئے اور گولیاں مار دیں۔
مقدمے کا اندراج
واقعے کے بعد حیات بلوچ کے بڑے بھائی مراد مرزا کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا جس میں نامعلوم ایف سی اہل کار کو شامل کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، مقتول کے بھائی مراد مرزا نے پولیس کو بتایا کہ میرے والدین کےسامنے ایک ایف سی اہل کار نے حیات پر فائرنگ کی۔
ایف آئی آر میں مراد نے مزید کہا کہ اگر میرے والدین کے سامنے مذکورہ اہل کار آجائے تو وہ اسے شناخت کر لیں گے۔
فرنٹیئر کور کا موقف
واقعہ 13 اگست کو پیش آیا اور چھ دن بعد فرنٹیئر کور حکام نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ بم دھماکے کے بعد ایف سی حکام نے اہل کار کے فائرنگ کرنے کا نوٹس لے کر کارروائی شروع کردی۔
ایف سی کے ترجمان کے مطابق، ایف سی حکام نے تحقیقات کے بعد اہل کار شادی اللہ کو پولیس کے حوالے کردیا تاکہ قانونی کارروائی مکمل ہوسکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ فرنٹیئر کور کے اہل کار کے اشتعال کا نتیجہ تھا، لیکن قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
حیات بلوچ کی ہلاکت پر نہ صرف بلوچستان بلکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے بھی مذمت کی تھی۔
واقعے کے بعد سینیٹ میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ اور نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے بھی واقعے کی مذمت کی۔
واقعے کے بعد بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایف سی اہل کار کو سخت سزا دی جائے۔
ہفتے کو حیات بلوچ کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال پر آل بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام کوئٹہ میں ریلی اور مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرین میں شامل ایک طالب علم رہنما کریم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہم یہاں حیات بلوچ کے ملزم کو سزا دینے کے لیے احتجاج کررہے ہیں تاکہ دوبارہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔"
کریم کے بقول، حیات بلوچ کے قتل کے الزام میں صرف ایف سی اہل کار کی گرفتاری ہی کافی نہیں بلکہ اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مظاہرے میں شامل ایک طالبہ ذکیہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات روز ہوتے ہیں لیکن حیات کا واقعہ خوش قسمتی سے سوشل میڈیا کی وجہ سے اُجاگر ہوا۔
بلوچستان میں ایک بار پھر طلبہ تنظیمیں صوبے میں ماوورائے عدالت واقعات کے خلاف متحرک ہو گئی ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک غیر فعال تھیں۔
حیات بلوچ کی ہلاکت کے خلاف نہ صرف کوئٹہ بلکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان میں بھی مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔