بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کرونا وائرس حملہ کرنے سے قبل مذہب، ذات برادری، رنگ، نسل، قومیت اور سرحد نہیں دیکھتا۔
اس کے ساتھ ہی نریندر مودی نے وبا کے خلاف لڑائی میں عوام سے متحد ہونے کی اپیل کی۔
وزیر اعظم کا یہ بیان اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں او آئی سی نے بھارتی مسلمانوں کو وبا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے کی ہندو نواز عناصر کی مبینہ مہم کی مذمت کی تھی۔
او آئی سی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
او آئی سی کے جنرل سیکرٹریٹ نے سیاسی حلقے، مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جہاں مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، مسلم مخالف رجحان کی رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت میں مسلمانوں پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر مزید کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں کرونا کی آڑ میں بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کی مذمت کی تھی اور مودی حکومت کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
مسلم مخالف مہم
مودی حکومت اور بھارتی ذرائع ابلاغ کو کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف تفریق برتنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ جب سے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک متعدد افراد کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں بھارتی مسلمانوں کو کرونا وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے خبریں پہنچانے والے نشریاتی اداروں نے تبلیغی جماعت اور دیگر مسلمانوں پر 'کرونا جہاد' کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی دہلی میں نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں مسلمان بھارت میں کرونا پھیلانے کی سازش کے تحت اکٹھا ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کئی دن تک نیوز چینلز پر اس الزام کے تحت پروگرام نشر کیے جاتے رہے۔ اس کے بعد مختلف ریاستوں کی حکومتوں نے تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی تلاش شروع کی اور سامنے نہ آنے پر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔
میڈیا کی اس رپورٹنگ کے بڑے پیمانے پر منفی نتائج برآمد ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں نے مسلمانوں کو کرونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے اثرات عوامی سطح پر بھی پڑے۔
مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم سبزی فروشوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جانے لگے اور انہیں ہندو اکثریتی علاقوں سے بھگایا جانے لگا۔ ان پر حملوں کے بھی واقعات پیش آئے۔
بھوپال سے دہلی آنے والے تبلیغی جماعت سے منسلک ایک نوجوان کو کرونا پھیلانے کے الزام کے تحت مقامی شرپسندوں نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ ہلاک ہو گیا جب کہ کرونا وبا کے ٹیسٹ میں اس نوجوان کی رپورٹ منفی آئی تھی۔
دہلی ہی میں ایک اور ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مسلم سبزی فروش کا نام پوچھ کر اس پر تشدد کیا گیا۔ بعد ازاں اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی اور تشدد کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست ہماچل پردیش اور پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلم ڈیری فارمرز کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ لوگوں نے ان سے دودھ خریدنا بند کر دیا بلکہ کئی خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بنارس کے دو اسپتالوں نے یہ کہہ کر مسلم خواتین کا علاج کرنے سے انکار کیا کہ وہ کرونا پھیلانے آئی ہیں۔
اسپتال کے عملے نے ان سے کہا کہ وہ پہلے کرونا کی جانچ کرائیں اور وبا کی منفی رپورٹ لے کر آئیں۔
جے پور میں بھی ایک مسلم خاتون کو اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ اسٹریچر پر ہی بچے کی پیدائش ہوئی جو کچھ دیر کے بعد فوت ہو گیا۔
میرٹھ کے ایک کینسر اسپتال نے ایک کثیر الاشاعت روزنامے میں اشتہار شائع کروا کر مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس اسپتال میں علاج کی غرض سے اسی وقت آئیں جب ان کے پاس کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی منفی رپورٹ ہو۔ اشتہار میں کرونا کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
اشتہار کی اشاعت سامنے آنے پر پولیس نے ویلنٹس کینسر اسپتال کے منیجر امت جین کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اس کے بعد اسپتال کی جانب سے معافی مانگی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرکاری اسپتال میں بھی تفریق
احمد آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں کرونا کے مسلم اور ہندو مریضوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھا گیا ہے۔ جس کی امریکہ کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن نے مذمت کی ہے۔
وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ایک حکم نامے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اس اسپتال میں داخل مریضوں نے بھی کرونا کے مسلم اور ہندو مریضوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھے جانے کی تصدیق کی ہے۔
میڈیا میں ایسی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں یا تو مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے کر ان پر حملے کرنے کی تفصیلات ہیں یا پھر ان کے سماجی بائیکاٹ کی تفصیلات ہیں۔
شدید رد عمل
ان واقعات پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جمعیت علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے تبلیغی جماعت کے خلاف مبینہ طور پر بے بنیاد رپورٹس نشر کرنے کی وجہ سے کئی چینلز کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنایا ہے۔ اس پر جلد ہی سماعت ہونے کا امکان ہے۔
'حکومت بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار رادھیکا راما سیشن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کرونا کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف مبینہ طور پر چلائی جانے والی مہم کو انتہائی شرمناک قرار دیا۔
رادھیکا راما سیشن نے کہا کہ 2014 میں جب سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے اسی وقت سے ایک فرقے کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول پہلے مسلمانوں کو ہجوم کے تشدد میں ہلاک کیا جاتا تھا اس کے بعد دہلی میں فساد کروا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور اب ان کو کرونا وبا پھیلانے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت حکومت کی جانب سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔
رادھیکا راما سیشن نے میرٹھ کے اسپتال کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک فرقے کو اس طرح نشانہ بنانا غلط ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو خلیج میں اس پر زبردست رد عمل ہوگا اور وہاں جو ہندو کام کرتے ہیں ان کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا جائے گا۔
'مسلمانوں کو پولیس بھی ہراساں کر رہی ہے'
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے لیے تبلیغی جماعت کو تو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے لیکن خود حکومت، سیاسی جماعتوں اور دیگر مذہبی گروپوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کی خلاف روزی کی درجنوں مثالیں ہیں جن میں کرونا وائرس کے سلسلے میں عائد پابندیوں کی خلاف روزی کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج پورا معاملہ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ ملک میں مسلمانوں پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ مسلم سبزی فروشوں کو ہندو علاقوں سے باہر نکالا جا رہا ہے یہاں تک کہ ان کی پٹائی بھی ہو رہی ہے۔ ہندوتوا گروہوں کی جانب سے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پولیس کی جانب سے ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔
'یہ مہم بھارت کو پوری دنیا میں بدنام کر دے گی'
ایک اور سینئر صحافی معصوم مراد آبادی کا کہنا ہے کہ مسلم مخالف میڈیا اور فاشسٹ قوتوں کا اتحاد ملک کو تباہی کی جانب لے جا رہا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تفریق کے لیے انہوں نے ذرائع ابلاغ کو ذمہ دار قرار دیا۔
معصوم مراد آبادی نے مزید کہا کہ میڈیا کی مسلم مخالف مہم کے نتیجے میں عام ہندو بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہ بھی یہ سمجھنے لگا ہے کہ مسلمان ہی کرونا پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے اس رجحان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پشت پناہی میں جاری یہ مہم بھارت کو پوری دنیا میں بدنام کر دے گی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایسی بھی رپورٹس ہیں کہ یومیہ مزدوروں میں خور و نوش کی اشیا تقسیم کرنے والے مسلمانوں کو بھی حملوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔
مصنفہ اور ناول نگار اروندھتی رائے نے جرمن خبر رساں ادارے 'ڈی ڈبلیو' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کرونا وائرس کے معاملے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے عوام میں فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔