برما کی فوجی حکومت نے کہا ہے کہ سات نومبر کے پارلیمانی انتخابات جمہوریت کے سفر میں پہلا قدم ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے کینیتھ روتھ نے انتباہ کیا ہے کہ یہ انتخابات محض ڈھکوسلا ہیں۔’’فوج کی نیت یہ ہے کہ ایسا تاثر دیا جائے گویا سویلین حکومت قائم ہو رہی ہے۔ در اصل اس کا مقصد فوجی حکومت کو مضبوط کرنا ہے۔ فوج نمائش کے لیے حکومت کو ایسی شکل دینا چاہتی ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے لیے قابلِ قبول ہو جائے ، لیکن وہ سویلین افراد کو ذرہ برابر اختیارات دینا نہیں چاہتی۔‘‘
روتھ نے برما کے بارے میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ایک روز ہ مجلس مذاکرہ میں ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے ۔
پینل کے ایک رکن سینٹر فار کونسٹیٹیوشنل ڈیموکریسی کے ڈیوڈ ولیمز نے کہا کہ اگرچہ سویلین افراد عہدوں کے لیے انتخاب لڑ سکتے ہیں، لیکن فوج کو پارلیمنٹ میں 25 فیصد نشستوں کی ضمانت دی گئی ہے اور بقیہ 75 فیصد امیدواروں پر فوج کو ویٹو کا حق حاصل ہے ۔ ’’انتخابی کمیشن ہر امید وار کی الگ الگ جانچ کر رہا ہے تا کہ کسی ایسے شخص کا نام بیلٹ پیپر میں شامل نہ ہو جو فوجی حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے ۔‘‘
ولیمز کہتے ہیں کہ ووٹنگ کے بعد، حکومت، آئینی طور پر فوج کی خواہشات پر عمل در آمد کی پابند ہو گی۔’’میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات کے بعد، برما میں بالکل ویسی ہی فوجی ڈکٹیٹر شپ ہو گی جیسی آج کل ہے ۔ فوج کو آئینی طور پر سویلین حکومت کی مداخلت کے بغیر، سب کچھ اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار ہوگا۔ لیکن اگر کبھی وہ سویلین حکومت سے تنگ آ جائے، تو وہ ہنگامی حالات کا اعلان کر سکتی ہے اور سب کو گھر واپس بھیج سکتی ہے ۔‘‘
کانفرنس میں کسی کو اس بارے میں شبہ نہیں تھا کہ ووٹنگ کے بعد بھی سارے اختیارات برما کی فوج کے پاس رہیں گے۔ لیکن جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ڈیوڈ سٹینبرگ نے کہا کہ سویلین اور حکومت مخالف نمائندگی کی اجازت دینا، چاہے وہ مسلح افواج کے تحت ہی کیوں نہ ہو، کئی عشروں کی فوجی حکومت کے بعد ایک اہم قدم ہے۔’’پچاس برس میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ حزب اختلاف کے ارکان مقامی پارلیمنٹ میں بیٹھیں گے۔ یہ بات اہم ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اقلیت میں ہوں گے اور ان پر بہت سی پابندیاں ہوں گی۔‘‘
سٹینبرگ نے اس بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا کہ بین الاقوامی برادری کو برما کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور وہاں تبدیلی کس طرح لائی جا سکتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ صرف انسانی حقوق کے ریکارڈ اور آنگ سان سوچی جیسی حکومت مخالف شخصیتوں کے ساتھ سلوک پر تنقید کرنا مفید ثابت نہیں ہوا ہے۔ زیادہ اچھا طریقہ یہ ہوگاکہ اس بات کی نشاندہی کی جائے کہ فوج کے طرز عمل سے قومی اتحاد کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے جب کہ مسلح افواج یہی مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیا سین نے بھی یہی کہا کہ اگر بین الاقوامی لیڈر اور سفارتکار، برما کے سرکاری عہدے داروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست فراہم کرتے رہیں، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ’’اقوام متحدہ کے ایلچیوں کا ہمیں یہ یقین دلانا کہ برما کی حکومت نے اپنی سخت پالیسیاں ترک کرنے کا وعدہ کیا ہے، اور آسیان کے لیڈروں کا یہ اعلان کرنا کہ انھوں نے برما کے لیڈروں کو کس طرح کھری کھری سنائی ہیں، کافی نہیں ہے ۔ ظالم فوجی حکمراں یہ سب کچھ سننے کو تیار ہیں۔ بس ان کے ہاتھ آزاد ہونے چاہئیں تا کہ وہ من مانی کر سکیں۔‘‘
سین نے کہا کہ برما کے خلاف پابندیوں میں اس کے حکمرانوں کے اقتصادی مفادات کو نشانہ بنایا جانا چاہیئے اور برما کے لوگوں کو مصائب سے بچانا چاہیئے ۔
توقع ہے کہ برما کی صورت حال اگلے مہینے صدر براک اوباما کے ایشیا کے دورے میں زیرِ بحث آئے گی۔ اس دورے میں وہ بھارت، انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا جائیں گے۔