امریکہ کے ایک سینیئر سفارت کار نے برما کی نئی حکومت سے کہاہے کہ واشنگٹن اس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتاہے ، تاہم اس کا انحصار برما میں سیاسی اصلاحات اور انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال کی بہتری سے ہے۔
امریکی معاون وزیر خارجہ جوزف یون کا برما کا تین روز دوہ جمعے کو اختتام پر پہنچا۔ مارچ میں برما میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی اعلی عہدے دار ہیں۔
محکمہ خارجہ نے کہاہے کہ یون نے برما کی حکومت پر زور دیاہے کہ وہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور جمہوری انداز حکمرانی کی جانب ٹھوس اور بامعنی ٰ اقدام کرے۔
امریکی معاون وزیر خارجہ نے برما میں اپنے قیام کے دوران وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ سرکاری عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ جمعرات کے روز انہوں نے برما کی حزب اختلاف کی جمہوریت نواز راہنما آنگ ساں سوچی اور نسلی اقلیتوں کے راہنماؤں سے بات چیت کی ۔
سوچی سے ملاقات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدے داروں اور حزب اختلاف کے راہنماؤں سے گفتگو سے انہیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ انہیں اپنے ساتھ واشنگٹن لے جارہے ہیں۔
آنگ ساں سوچی کا کہنا تھا کہ جوکچھ وہ سمجھ سکی ہیں ، وہ یہ ہے کہ امریکہ ، برما پر عائد پایندیاں اٹھانے سے قبل ، حکومت کی جانب سے ملک میں نمایاں تبدیلی لانے کا انتظار کرے گا۔
لگ بھگ 20 سال کے بعد گذشتہ سال نومبر میں برما میں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے اور حکومت کا کہناہے کہ وہ سویلین کو اقتدار سونپنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں، حزب اختلاف اور امریکہ سمیت کئی غیر ملکی حکومتیں کہہ چکی ہیں کہ ووٹنگ شفاف اور آزادانہ نہیں تھی۔