کیا زمین پر زندگی ویران سیارچے 'بینو' سے آئی ہے؟

سیارچہ بینو، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہاں زندگی کے تمام اجزا موجود ہیں۔ یہ سیارچہ کسی بڑے سیارے کا حصہ تھا جو کروڑوں سال پہلے اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا اور اب وہ سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔ فائل فوٹو

  • زمین پر زندگی کے لیے ایک سازگار ماحول تو موجود ہے لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہاں زندگی خلا سے آئی ہے۔
  • زندگی کی تحقیق کے لیے بینو نامی ایک سیارچے پر فلکیات کے ماہرین کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
  • سائنس دانوں نے بینو سے لائے گئے نمونوں کے تجزیے کے بعد کہا ہے کہ وہاں ایسے اجزا بڑی مقدار میں موجود ہیں جو زندگی شروع کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
  • زندگی کے آغاز کےلیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں پانی، کیمیائی عمل میں معاون اجزا اور توانائی شامل ہیں۔
  • سازگار ماحول میں کیمیائی عمل کے نتیجے میں آراین اے اور ڈی این اے تشکیل پاتا ہے جس سے زندگی شروع ہوتی ہے۔
  • بینو کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ایک بڑے سیارے کا حصہ تھا جو کروڑوں سال پہلے ٹوٹ کر اس سے الگ ہو گیا۔

زمین پر زندگی کی ان گنت اقسام ہیں جو نباتات اور جانداروں کی شکل میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔کرہ ارض ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس کی شروعات ایک ویران سیارے کے طور ہوئی۔ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زندگی کا جنم زمین پر نہیں ہوا بلکہ یہ کہیں باہر سے آئی تھی اور پھلنے پھولنے کے لیے اسے یہاں ایک سازگار ماحول ملا۔

سن 2016 میں ناسا نے ایک خلائی جہاز او سائرس ریکس(Osiris-Rex) سورج کے مدار میں گردش کرنے والے ایک سیارچے بنیو(Bennu) کی جانب روانہ کیا تھا جس نے 2020 میں وہاں سے مٹی اور چٹان کے کچھ نمونے حاصل کیے ، جو زمین پر 2023 میں پہنچے۔

ان نمونوں کا وزن 112 گرام تھا۔یہ مقدار خلا سے زمین پر لائے جانے والے نمونوں میں چاند کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

ان نمونوں کے سائنسی تجزیے سے معلوم ہوا کہ ان میں وہ بنیادی اجزا موجود ہیں جن سے زندگی شروع ہوتی ہے۔

ناسا کی ایک ویڈیو سے لی گئی اس تصویر میں سائنس دان اس کیپسول کا معائنہ کررہے ہیں جس میں بینو کے نمونے لائے گئے ہیں۔24 ستبمر 2023

ناسا کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر نکی فاکس نے اس تحقیق کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ تحقیق کے نتائج اس نظریے کی تائید کرتے ہیں کہ بینو جیسے سیارچے ان ذرائع میں شامل تھے جنہوں نے زمین پر زندگی کے لیے پانی اور کیمیائی تبدیلیوں کے ٹکڑے فراہم کیے ۔ یہ واقعی ایک اہم سائنسی دریافت ہے۔

ان نمونوں پر تحقیق کرنے والی ٹیم میں اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے ٹم مک کوئے بھی شامل تھے اور وہ اس تحقیق کے مصنف بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں اس قسم کا ماحول موجود تھا جو زندگی کی بنیاد کے لیے ساز گار تھا۔

سائنس دانوں کے مطابق زندگی کے آغاز کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں پانی، کیمیائی تبدیلی کے لیے سازگار اجزا اور توانائی شامل ہیں۔ یہ چیزیں بینو پر موجود تھیں ۔

سیارچہ بینو، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہاں زندگی کے تمام اجزا موجود ہیں۔ یہ سیارچہ کسی بڑے سیارے کا حصہ تھا جو کروڑوں سال پہلے اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا اور اب وہ سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔ فائل فوٹو

بینو سورج کے گرد گردش کرنے والا ایک سیارچہ(asteroid) ہے جو اپنی گردش کے دوران زمین کے قریب سے بھی گزرتا ہے۔اپنی ساخت کی وجہ سے وہ ایک طویل عرصے سےسائنس دانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینو ساڑھے چار ارب سال پہلے اس وقت وجود میں آیا تھا جب ہمارا نظام شمسی بن رہا تھا۔ بینو کی ساخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ماضی میں کسی بہت بڑے سیارے کا حصہ تھا جو کسی وجہ سے کروڑوں سال پہلے اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بینو کے نمونوں کے تجزیے کے نتائج یہ جاننے کے لیے اہم تھے کہ زندگی کے بنیادی بلاکس جنہیں آر این اے اور ڈی این اے کہا جاتا ہے، کے پیش رو کون تھے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ وہاں امونیا کی بھاری مقدار بھی موجود ہے جو زندگی کے آغاز کا ایک اہم کیمیائی ٹکڑا ہے۔

ناسا کی جانب سے جاری ہونے والی اس تصویر میں کیپسول کے اندر سیارچے بنیو سے لائی گئی مٹی کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 11 اکتوبر 2023

ناسا کے ایک اور سائنس دان ڈینیئل گلیون کہتے ہیں کہ بینو پر امونیا کی بھاری مقدار دریافت ہوئی ہے جو زمین پر قدرتی حالت میں ملنے والے امونیا سے تقریباً 100 گنا زیادہ ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ امونیا کی بھاری مقدار ایک سرد ماحول کی نشاندہی کرتی ہے جہاں آر این اے اور ڈی این اے کی تشکیل ہو سکتی ہے۔

تاہم ایک سوال کا جواب ابھی تشنہ ہے کہ اگر بینو میں زندگی کی شروعات کے لیے ساز گار ماحول موجود تھا۔ وہاں زندگی کے بنیادی اجزا اور نمکین پانی بھی تھا تو پھر وہاں زندگی کیوں نہیں تھی۔

ناسا کی جاری کردہ اس تصوراتی تصویر میں خلائی جہاز اوسائرس ریکس سیارچے بنیو کی سطح سے نمونے اکٹھے کر رہا ہے۔ فائل فوٹو

ناسا کے سائنس دان جیسن ڈورکن کہتے ہیں کہ بینو میں وہ سب کچھ تھا جو زمین پر ہے تو وہاں زندگی کو شروع ہونے کاموقع نہ ملنا ایک غور طلب سوال ہے۔ جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

موجودہ تحقیق میں بینو کے نمونوں کا صرف 25 فی صد حصہ استعمال کیا گیا ہے اور باقی ماندہ نمونوں کو مستقبل کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ ڈورکن کہتے ہیں کہ شاید ابھی ہمارے پاس ایسے طریقے موجود نہیں ہیں جو ہمیں ایسے نتائج تک پہنچنے میں مدد کر سکیں جن کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی، ناسا اور سائنسی جریدے نیچر سے لی گئیں ہیں)