افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں قائم امن کو نسل کے افتتاحی اجلاس کا آغاز جمعرات کے روز دارالحکومت کابل میں کیا ۔
ستر رکنی کونسل کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے نو برس مکمل ہوگئے ہیں۔ سابق طالبان عہدے دار وں اور سابق صدور کے علاوہ سماجی اور مذہبی رہنما بھی اس کونسل کا حصہ ہیں۔
مسٹر کرزئی نے طالبان سے تشدد کا راستہ ترک کرنے اور ملک کے آئین کا احترام کرنے کی درخواست کر رکھی ہے، لیکن اِس عسکری تحریک نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا ء سے پہلے کسی قسم کے مفاہمتی عمل کو رد کر دیا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے افغان حکومت کی طرف سے امن کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے رواں ہفتے اطلاع دی تھی کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان خفیہ بات چیت کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
دریں اثنا نیٹو کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے ایک اہم طالبان رہنما کو ہلاک کر دیا ہے جو افغان پولیس پر حملوں کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار تھا۔
جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مولوی جواد الله نامی طالبان راہنما اُن آٹھ شدت پسندوں میں سے ایک تھا جو شمالی صوبے تخارمیں کیے گئے نیٹو کے فضائی حملے اور اس کے بعد کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔
بیان کے مطابق جواد الله سڑک کنارے نصب بم کے حملوں اور اغوا کی وارداتوں کی منصوبہ بندی میں شامل رہا اور اس نے صوبہ قندوز میں ایک پولیس تھانے پر کیے گئے حالیہ حملے میں بھی کردار ادا کیا۔ اس حملے میں دس افغان پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔