وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کی کوششیں پاکستان کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
پاکستانی وزیر اعظم نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے تصدیق کی ہے کہ اُن کی حکومت ملک میں جنگ کے خاتمے اور سیاسی مصالحت کی کوششوں میں طالبان کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کرتی آئی ہے۔
تاہم اپنے بیان میں افغان صدر نے کہا کہ وہ نظریاتی طور پر افغانستان کے مخالفین اور امریکہ یاپاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں ملوث افراد کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مسلسل رابطوں کی افغان حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا ہے۔
وزیر اعظم گیلانی نے منگل کو چار سدہ میں صحافیوں سے اپنی گفتگو میں صدر کرزئی کی طالبان کے ساتھ رابطوں کی پالیسی پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ افغان صدر اس حوالے سے جب امریکہ کو اپنے” روڈ میپ“ سے آگاہ کریں گے اور امریکہ اس کا تبادلہ پاکستان سے کرے گا تو اُسی وقت وہ اپنے ملک کے موقف کا اظہار کرسکیں گے۔
اعتدال پسند طالبان اور باغی گروہوں کے ساتھ بات چیت کو فروغ دینے کی کوششوں کے لیے صدر حامد کرزئی نے ایک نئی امن کونسل قائم کرکے اُس کا سربراہ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کو مقرر کیا ہے۔
طالبان نے سرکاری طور پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے اس موقف کو دہرایا ہے کہ جب تک غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل نہیں جاتیں وہ امن مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔