پورے افغانستان سے تقریباً 1600مندوبین کابل میں جمع ہو رہے ہیں جہاں وہ صدر حامد کرزئی کی جانب سے بلائے گئے امن جرگے میں شرکت کریں گے۔
مسٹر کرزئی نے یہ روایتی جرگہ اِس بارے میں قومی اتفاقِ رائے کے لیے بلایا ہے کہ بغاوت کو کس طرح ختم کیا جائے اور مصالحت کی جانب کس طرح پیش رفت کی جائے۔
یہ تین روزہ جرگہ بدھ سے شروع ہو رہا ہے جِس میں پورے ملک سے قبائلی عمائدین اور سیاست داں شرکت کریں گے۔
توقع ہے کہ جرگے میں اِس بات پر بھی تبادلہٴ خیال کیا جائے گا کہ طالبان کے سلسلے میں کرزئی حکومت کو کس سے بات کرنی چاہیئے اور یہ کہ مذاکرات کہاں ہونے چاہئیں اور افغان حکومت کی جانب سے بات چیت میں کسے قیادت کرنی چاہیئے۔
کُنڑ صوبے کے ایک مندوب حاجی صالح محمد کا کہنا تھا کہ اُن کا خیال ہے کہ جرگے کو تین دِنوں سے زیادہ جاری رہنا چاہیئے جب تک کہ کوئی سمجھوتا نہ ہوجائے۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ روایتی جرگہ صرف کابل میں نہیں بلکہ ہرصوبے میں ہونا چاہیئے۔ اِس جرگے کی تجویز صدر کرزئی گذشتہ سال کے انتخاب کے بعد سے پیش کرتے رہے ہیں۔
افغانستان میں اعلیٰ امریکی کمانڈرجنرل اسٹینلی میک کرسٹل نے اِس ہفتے کے شروع میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ افغان فوجیوں کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج مصالحتی عمل کے لیے ضروری سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اِسی دوران باغی دھڑوں سے منسوب بیانات میں، جو جرگے سے ایک دِن پہلے سامنے آئے ہیں، کہا گیا ہے کہ کرزئی انتظامیہ نے مندوبین کا انتخاب اپنی مرضی سے کرلیا ہے اور یہ کہ یہ جرگہ کامیاب نہیں ہوگا۔
افغان پارلیمنٹ کی ایک رُکن، فاطمہ عزیز بھی جرگے میں شامل ہوں گی۔ اُن کاخیال ہے کہ مصالحت کےلیے طالبان سے رابطہ بہت مشکل ہوگا اور اِس کی وجہ اُن کے نظریات اور خواتین سے امتیازی سلوک کی طویل تاریخ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر طالبان افغانستان کےمعاشرے میں اپنےلیے گنجائش بنالیتے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے۔
تین روزہ جرگہ بدھ سے شروع ہو رہا ہے جِس میں پورے ملک سے قبائلی عمائدین اور سیاست داں شرکت کریں گے
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1