پاکستان ٹیم کا دورۂ انگلینڈ اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ ون ڈے سیریز میں غیر معروف انگلش کھلاڑیوں کے ہاتھوں وائٹ واش کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی گرین شرٹس کو دو ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تیسرے اور آخری میچ میں پاکستانی ٹیم نے مقابلہ تو خوب کیا لیکن آخری اوور میں میزبان ٹیم نے ہدف حاصل کر کے میچ تین وکٹوں سے جیت لیا اور سیریز ایک کے مقابلے میں دو میچز سے اپنے نام کرلی۔
اگر پاکستان کرکٹ ٹیم دورے کا آخری میچ جیت جاتی تو ایک تو کروڑوں پاکستانیوں کو عید کا بہترین تحفہ مل جاتا، دوسرا دورہ ویسٹ انڈیز سے قبل گرین شرٹس کے اعتماد میں اضافہ ہوجاتا، جہاں انہیں ٹیسٹ میچ کے ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیلنا ہیں۔
انگلش ٹیم کی بہتر کارکردگی
اولڈ ٹریفورڈ میں کھیلے گئے سیریز کے فیصلہ کن معرکے میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6 وکٹ کے نقصان پر 154 رنز اسکور کئے۔ جواب میں انگلش ٹیم نے ہوم گراؤنڈ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سات وکٹوں کے نقصان پر اننگ کے آخری اوور میں ہدف حاصل کرلیا۔
پاکستان کی جانب سے بیٹنگ میں محمد رضوان ناقابل شکست 76، اور بالنگ میں محمد حفیظ تین وکٹوں کے ساتھ نمایاں رہے۔ انگلش ٹیم کی جانب سے لیگ اسپنر عادل راشد نے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ اوپنر جیسن روئے نے 36 گیندوں پر 64 رنز بنائے۔
ایک مرحلے پر میچ میں انگلش ٹیم کی فتح آسان نظر آرہی تھی لیکن حسن علی اور محمد حفیظ کی آخری اوورز میں شاندار بالنگ کی وجہ سے پاکستان ٹیم میچ میں واپس آگئی جس کی وجہ سے میچ کا فیصلہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر ہوا۔
جارحانہ بلے بازی کرنے والے جیسن روئے کو مین آف دی میچ، اور لیئم لیوینگ اسٹون کو سیریز میں شان دار بلے بازی پر مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔
انگلینڈ میں شکست سے پاکستان کی تیاریوں کو دھچکا!
ون ڈے کے بعد ٹی ٹوئنی سیریز میں بھی ناکامی سے پاکستان ٹیم کی محدود اوور کی کرکٹ کی پلاننگ کی قلعی کھل گئی۔ گرین شرٹس کے مقابلے میں انگلش ٹیم نے زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقعہ دیا۔ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی اور بالنگ میں تجربا ت کئے اور انگلش کھلاڑیوں کی فیلڈنگ بھی باکمال رہی۔
دوسری جانب پاکستان ٹیم نے ون ڈے سیریز میں مسلسل ناکامیوں کے باوجود ایک ہی فائنل الیون میدان میں اتاری، اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی تجربات پر ترجیح ماضی کی پرفامنس کو دی۔ نہ بیٹنگ آرڈر پر کسی نے توجہ دی، نہ ہی ٹیم کا انتخاب کسی پلاننگ کے تحت کیا گیا۔
تیسرے میچ میں پاکستان نے فاسٹ بالرز کے مقابلے میں اسپنرز پر انحصار کیا۔ شاہین شاہ آفریدی نے میچ میں صرف ایک اوور کیا جب کہ محمد حسنین سے بالنگ ہی نہیں کرائی گئی۔ اس کے برعکس پہلے دونوں میچز میں محمد حفیظ کی موجودگی کے باوجود صرف شاداب خان اور عماد وسیم نے بالنگ کی۔
بابر اعظم کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
جہاں بات تجربات کی ہورہی ہے، وہیں بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کا بھی ذکر کرنا ضروری ہوگا۔ انگلش ٹیم نے تیسرے میچ میں پہلے ان بلے بازوں کو موقع دیا جن کی بیٹنگ کم آتی ہے، اور وقت پڑنے پر کپتان اوئن مورگن نے آکر جارحانہ اننگز کھیلی۔
دوسری جانب پاکستانی کپتان بابر اعظم نے اننگز کا آغاز تو کیا، لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی باقی کھلاڑی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔
ان فارم حسن علی کے ہوتے ہوئے کپتان نے آؤٹ آف فارم محمد حفیظ، شاداب خان اور عماد وسیم کو اس وقت بیٹنگ کے لئے بھیجا جب پاکستان کو تیز رفتاری سے رنز بنانے کی ضرورت تھی۔
پاکستان اگر اس مرحلے پر 15 سے 20 رنز زیادہ بنالیتا تو میچ پر اس کی گرفت مضبوط ہوجاتی۔
اس سیریز میں شکست کے ساتھ ہی کپتان بابر اعظم کا بیس ماہ ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔
SEE ALSO: انگلینڈ کی ناتجربہ کار کرکٹ ٹیم نے ون ڈے سیریز میں پاکستان کو وائٹ واش کردیارواں سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل ان کے پاس صرف ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچز ہیں، جس میں قومی ٹیم کو اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی تاکہ میگا ایونٹ سے قبل ایک متوازن ٹیم کا انتخاب کیا جاسکے۔
کون سے کھلاڑی نمایاں رہے
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے کھلاڑیوں میں پاکستانی اوپنر محمد رضوان سرِ فہرست رہے۔ انہوں نے تین میچز میں 88 کی اوسط سے 176 رنز بنائے جس میں دو نصف سنچریاں شامل تھیں۔
انگلینڈ کے لیئم لیوینگ اسٹون 49 کی اوسط سے 147 (ایک سنچری) اور پاکستانی کپتان بابر اعظم 39۔33 کی اوسط سے 118 رنز بناکر دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
بالنگ میں سب سے زیادہ وکٹوں کے ساتھ انگلش لیگ اسپنر عادل راشد سرِ فہرست رہے جنہوں نے صرف دو میچوں میں 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
پاکستان ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان پانچ، اور شاہین شاہ آفریدی، محمد حسنین، عماد وسیم اور انگلینڈ کے ثاقب محمود چار چار وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔