پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کا تیسرا اور آخری میچ منگل کو اولڈ ٹریفورڈ میں کھیلا جا رہا ہے۔ دونوں ٹیمیں میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرنے کی خواہش مند ہیں۔
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان کا دورۂ انگلینڈ اس میچ کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے گا۔ تین میچز کی ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں گرین شرٹس کی شکست کا غم پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کامیابی سے شائقین نے بھلا دیا تھا۔ لیکن دوسرے میچ میں بڑی ناکامی نے شائقین کو ایک بار پھر مایوس کر دیا ہے۔
تاہم اب ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آخری معرکہ پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے شروع ہو رہا ہے۔ گرین شرٹس میچ جیت کر نہ صرف سیریز اپنے نام کر سکتے ہیں بلکہ وہ روٹھے ہوئے شائقین کو بھی منا سکتے ہیں۔
ایک بات جو پاکستان کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس گراؤنڈ پر انگلینڈ نے اب تک سات میچز کھیلے ہیں جن میں سے چار میں اس نے کامیابی حاصل کی۔ لیکن تین میں سے جن دو میچز میں اسے شکست ہوئی وہ پاکستان کے خلاف تھی۔
بابر اعظم کا ناقابلِ شکست رہنے کا ریکارڈ خطرے میں
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے 20 ماہ کے دوران کوئی ٹی ٹوئنٹی سیریز نہیں ہاری لیکن اب ان کا یہ ریکارڈ خطرے میں ہے۔
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے آخری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی سیریز نومبر 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں ہاری تھی۔
اس کے بعد گرین شرٹس نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم اینڈ اوے اور بنگلا دیش کے خلاف ایک ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کی۔
اسی دوران انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں پاکستان کی سیریز ایک ایک سے ڈرا ہوئی اور جس ٹیم کو نیوزی لینڈ نے گزشتہ سال ہرایا اس کی قیادت بابر اعظم کی غیر موجودگی میں شاداب خان کر رہے تھے۔
دونوں ٹیموں کا بیٹنگ لائن اپ
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کی جس نے پہلے میچ میں چھ وکٹوں کے نقصان پر ریکارڈ 232 رنز بنائے لیکن دوسرے میچ میں 201 رنز کے تعاقب میں نو وکٹوں پر صرف 155 رنز بناسکے۔
دونوں میچز میں ففٹی کا ہندسہ صرف بابر اعظم اور محمد رضوان نے ایک ایک بار عبور کیا۔ باقی پوری ٹیم میں کوئی بلے باز بھی ایک اننگز میں 40 سے زائد رنز نہیں اسکور کرسکا۔
انگلینڈ کی جانب سے بھی صرف دو مرتبہ ففٹی کراس کی گئی لیکن اس میں کپتان جوس بٹلر کی نصف سینچری کے ساتھ ساتھ پہلے میچ میں لیئم لیوینگ اسٹون کی 43 گیندوں پر جارحانہ 103 شامل تھے۔
دوسرے میچ میں حارث روؤف کی بالنگ پر ان کا گراؤنڈ سے باہر جانے والا چھکا کئی برسوں تک لوگوں کو یاد رہے گا۔
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان اور انگلش بالرز کا موازنہ
اگر تیسرے میچ سے قبل دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو زیادہ فرق نہیں۔ دو میچز میں پاکستانی بالرز نے جہاں مجموعی طور پر 401 رنز دیے وہیں انگلش بالرز نے 387 رنز دیے۔
پاکستانی بالرز نے میزبان ٹیم کو دونوں مرتبہ آؤٹ بھی کیا لیکن اگر دیگر پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو معاملہ پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان نے دونوں میچز میں صرف دو اسپنرز عماد وسیم اور شاداب خان کو آزمایا لیکن محمد حفیظ کی موجودگی کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اسکواڈ میں عثمان قادر اور محمد نواز بھی موجود ہیں۔
دوسری جانب انگلش ٹیم نے وکٹ کا درست اندازہ لگاتے ہوئے دوسرے میچ میں عادل راشد کے ساتھ ساتھ میٹ پارکنسن کو فائنل الیون میں جگہ دی۔ اسی کے ساتھ معین علی سمیت تینوں اسپنرز نے پاکستان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
پہلے میچ میں پاکستان کی جانب سے سوائے محمد حسنین (7 رنز فی اوور) اور شاہین شاہ آفریدی (9 رنز فی اوور) کے، کسی بھی بالر نے 11 رنز فی اوور سے کم رنز نہیں دیے۔ شاداب خان نے تین وکٹیں تو حاصل کیں لیکن اس کے لیے انہیں 52 رنز کھانا پڑے۔
حارث روؤف چار اوور میں 44 اور عماد وسیم 46 رنز کے عوض صرف ایک وکٹ حاصل کر سکے اور ان کے زیادہ تر شکار باؤنڈری لائن پر ہوئے۔
یہ تو احوال تھا اس میچ کا جو پاکستان نے جیتا۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں صورتِ حال اور بھی مختلف نظر آئی جب بیٹنگ پچ پر کپتان نے بالرز کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور انگلینڈ کی ٹیم 20 اوورز میں 200 رنز بنانے میں کامیاب ہوئی۔
پہلے میچ میں سب سے کم رنز دینے والے محمد حسنین نے چار اوورز میں 51 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
دیکھا جائے تو انگلش بالرز نے فیلڈرز کی مدد کے بغیر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جس میں تین بولڈ، ایک کوٹ اینڈ بولڈ اور دو اسٹمپ سمیت چار وکٹ کے پیچھے شکار ہیں۔
جب کہ پاکستانی بالرز نے اپنی مدد آپ کے تحت صرف چار وکٹیں حاصل کیں۔ باقی تمام کھلاڑی یا تو باؤنڈری پر آؤٹ ہوئے یا اونچی ہٹ مارتے ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں میچز میں وکٹ کیپر محمد رضوان نے کوئی شکار نہیں کیا جو کہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے۔
حیران کن اس لیے کہ گرین شرٹس میں دو مستند اسپنرز کھیل رہے ہیں اور پریشان کن اس لیے کیوں کہ مقامی بلے باز پاکستانی بالرز سے ڈر نہیں رہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی وکٹ ان کی اپنی غلطی سے جائے گی اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں مزید دلیر بناتی ہے۔
پاکستان ٹیم کی غلطیاں ماہرین کو نظر آرہی ہیں
ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں تو پاکستان ٹیم کی مینجمنٹ نے ایک ہی فائنل الیون کو تینوں میچوں میں موقع دیا لیکن کیا تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ٹیم میں رد و بدل کرنے کی ضرورت ہے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ بابر اعظم پر کپتانی کا اضافی بوجھ ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے جب کہ کچھ نے بالرز کی ناقص کارکردگی پر بالنگ کوچ وقار یونس کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انتخاب عالم نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ میں کپتان بنانا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔
ایک اور سابق کپتان راشد لطیف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک گراف شئیر کیا جس کے مطابق دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی جیت کا زیادہ تناسب ہوتا ہے،لیکن بابر اعظم نے پہلے فیلڈنگ کو ترجیح دی۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ مینیجمنٹ، ٹیم اور کپتان، سب کو دوسرے میچ میں لیے گئے فیصلوں پر ہٹا دیتے۔
ادھر سابق فاسٹ بالر سکندر بخت نے بھی ٹیم کو دوسرے میچ میں خراب کارکردگی پر آڑے ہاتھوں لیا۔
اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی نے اعظم خان کی دوسرے میچ میں بیٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے دوسری بال پر غیر ذمہ دارانہ شاٹ کو سمجھ سے بالا قرار دیا۔