امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں سے کہا ہے کہ انہیں بین الافغان مذاکرات فوری طور دوبارہ شروع کرنا چاہیئں۔
زلمے خلیل زاد کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں سال ستمبر سے جاری بات چیت میں دونوں فریقوں نے 'مشاورت کے لیے' 14 دسمبر سے تین ہفتوں کے وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کا آئندہ دور 5 جنوری 2021 کو ہو گا۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے ٹوئٹس میں کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ جنگ جاری ہے۔ ایسے وقت میں ان کے بقول سیاسی تصفیے، تشدد میں کمی اور جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے۔
خلیل زاد کے بقول اس وقت بہت کچھ داؤ پر ہے, اس لیے ان کے بات چیت کے دوبارہ شروع ہونے میں تاخیر نہیں ہونی چایے اور اس بات چیت کو اتفاق رائے کے مطابق 5 جنوری کو شرو ع ہونا چاہیے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے افغانستان کے مختلف علاقوں میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی میں شدت آئی ہے, جس کی وجہ عام شہریوں سمیت دونوں فریقوں کے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ بین الافغان امن مذاکرات کا آئند دور افغانستان میں ہونا چاہیے۔ صدر غنی نے اس کے ساتھ طالبان کو یہ بھی پیش کش کی کہ افغان حکومت طالبان سے افغانستان کے کسی بھی علاقے میں ان سے مذاکرات کرنے پر تیار ہے۔
افغاان صدر نے یہ بات پیر کو کابل میں کابینہ کے اجلاس کے دوران کہی ہے۔
صدر غنی نے مزید کہا ایک طرف طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان سر زمین پر موجود ہیں تو ان کے بقول پھر وہ کیوں افغانستان کے اندر بات چیت نہیں کر رہے؟
افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے ہفتے کو ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چییت کا آئندہ دور افغانستان میں ہونا چاہیے۔ تاہم حمد اللہ محب نے یہ بھی واضح کیا کہ طالبان بات چیت کے لیے کسی بھی مقام کا انتخاب کرتے ہیں تو افغان حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی نے اپنی ٹوئٹ میں صدر غنی کے بیان کے حوالے سے کہا کہ افغان سرد موسم میں کسی خیمے میں بھی مذاکرات کر سکتے ہیں۔ اور یہ کہ بات چیت کے لیے کسی پرتعیش ہوٹل کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔
صدر غنی نے یہ واضح کیا کہ تمام لوگوں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بات چیت کیسے آگے بڑھ رہی ہے اور کون سے امور زیر بحث ہیں اور ان پر کیوں بات چیت ہو رہی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے آئندہ دور کا انعقاد افغانستان میں کرنے کے بارے میں یہ افغان صدر اشرف غنی کی اہم پیش کش ہے، کیونکہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغان امن بات چیت افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں ہونی چاہیے اور اس لیے یہ ایک مناسب پیش کش ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آ ئندہ دور بھی افغانستان میں منعقد ہونا چاہیے۔
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ اگرچہ امن بات چیت کو افغانستان میں کرانے پر سیکیورٹی خدشات ہو سکتے ہیں، لیکن اس باوجود یہ پیشکش افغانوں کی قیادت اور سرپرسی میں افغان امن عمل کی جانب ایک مثبت قدم ہو گا۔
اگرچہ طالبان کی طرف سے اٖفغان صدر کی پیش کش پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا، لیکن افغان امور کے ایک ماہر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ شاید طالبان اس پیش کش کو قبول نہ کریں کیونکہ طالبان افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر غنی کی پیش کش اس وقت افغانستان کے اندر بھی زیر بحث ہے، لیکن شاید طالبان اس پیش کش پر آمادگی ظاہر نہ کریں۔
ان کے بقول قطر میں بین الافغان مذاکرات میں تین ہفتوں کے وقفے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ بات چیت کا آئندہ دور کہاں ہو گا۔
دوسری طرف امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پیر کو پاکستانی فوج کی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر افغانستان میں ریزولیوٹ مشن کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی خلیل زاد کے ہمراہ تھے۔
پاکستانی فوج کی شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملاقات کے دوران دو طرفہ امور، خطے کی مجوعی صورت حال اور خاص طور پر جاری افغان امن و مصالحت کے عمل پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ اس موقع پر جنرل باجوہ نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے کے امن و استحکام کے لیے مثبت کردارا کرتا رہے گا۔ ملاقات کے دوران امریکی وفد نے خطے میں امن کے حصول کے مشترکہ مقصد کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔