پاکستان کے صوبے پنجاب کے جنوبی ضلع ملتان میں ایک نام نہاد پنچایت کے حکم پر سترہ سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر انتقاماً جنسی زیادتی نشانہ بنایا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے قبل ازیں ایک دوسری لڑکی کے ساتھ مبنیہ طور پر جنسی زیادتی کی تھی جس کی سزا کے طور پر پنچایت نے متاثرہ لڑکی کے بھائی کو ملزم کی بہن سے زیادتی کرنے کا حکم دیا۔
یہ واقعہ مظفر آباد پولیس اسٹیشن کی حدود میں دریائے چناب کے کنارے آباد گاؤں راجا پور میں گزشتہ ہفتے پیش آیا۔
مظفر آباد پولیس اسٹیشن کے انچارج محمد راشد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ہے کہ 16 جولائی کو ایک شخص نے ایک 12 سالہ لڑکی کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد قبیلے کی پنچایت نے، جو لگ بھگ 10 سے 12 افراد پر مشتمل تھی، اس 12 سالہ لڑکی کے بھائی سے کہا کہ وہ بھی بدلے میں ملزم کی بہن سے جسنی زیادتی کرے۔
محمد راشد نے بتایا کہ مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے بنائے گئے (ملتان) مرکز سے متعلق پولیس اسٹیشن میں دونوں خواتین سے مبینہ جنسی زیادتی کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے پنچایت میں شامل آٹھ افراد کو گرفتار کر کے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
خواتین کے حققوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنطمیں ایسے واقعات کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے پنچایتی فیصلوں کے تحت خواتین کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے سدِ باب کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے جانے کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر بھی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے کمیشن برائے حقوقِ نسواں کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف ایسے واقعات کی کئی وجوہات ہیں۔
"ابھی ذہنیت تبدیل نہیں ہورہی اور اب بھی پنچایتیں ایسے فیصلے کرتی ہیں۔ لیکن اب فرق یہ پڑا ہے کہ پولیس نے کارروائی کر کے ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے۔"
فوزیہ وقار نے کہا کہ اگرچہ اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جہاں قوانین پر موثر نفاذ ضروری ہے وہیں خواتین سے متعلق سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ایسے واقعات کی وجہ بنتے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کمیشن برائے حقوقِ نسواں کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے سات ہزار واقعات رونما ہوئے جن میں جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد لگ بھگ دو ہزار کے قریب تھی۔