پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی ضلع قصور میں مقامی عہدیداروں کے مطابق رواں سال کے دوران اب تک دس بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔ ان میں اکثریت کم عمر لڑکیوں کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق رواں ماہ پیش آنے والے اسی طرح کے ایک تازہ ترین واقعہ میں ایک دس سال لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش 8 جولائی کو ایک زیر تعمیر عمارت سے ملی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ تمام واقعات قصور شہر کے ایک ہی علاقے میں رونما ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران لگ بھگ ایک سو مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے ان سے چھان بین کی گئی ہے لیکن پولیس نے میڈیا کو اس بارے باضبابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا ہے۔
ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مکمل چھان بین کے مطالبات سامنے آئے ہیں تاکہ ان کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ دو سال قبل صوبہ پنجاب کے ضلع قصور اور پھر خیبر پختونخواہ میں ایسے متعدد واقعات پیش آئے جن میں نا صرف بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی وڈیوز بنا کر ان کا استحصال کیا گیا۔
پنجاب حکومت کے بچوں کے تحفظ اور فلاح سے متعلق ادارے کی چیئر پرسن صبا صادق نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قصور کی مقامی انتظامیہ سے کہا ہے کہ ان واقعات کی چھان بین کریں۔
’’میری قصور کی ڈپٹی کمشنر سے بات ہوئی ہے اور ان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ہماری معاونت کرے کہ اگر ایسی کچھ جگہیں ہیں جہاں یہ واقعات ہو رہے ہیں تو وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر ان کو ختم کرنے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔"
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے ایک عہدیدار گوہر ممتاز نے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے افراد سزا سے نا بچ سکیں۔
’’2016ء میں پورے ملک میں لگ بھگ 100 بچوں کو جنسی نشانہ کا زیادتی بنا کر قتل کیا گیا ہے اور اب رواں سال چھ ماہ کے اندر صرف قصور میں 10 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے ۔۔۔ پولیس کی تحقیقاتی کا مناسب نا ہونا، لوگوں کو بروقت انصاف نا ملنا یہ ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
تاہم ممتاز گوہر نے کہا کہ والدین کی طرف سے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے شعور و آگہی میں کمی بھی ایسے واقعات کی وجہ بنتی ہے ان کے بقول تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھی اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے وہ کس طرح اپنے ذاتی تحفظ کو یقینی بنا سکتے ہیں۔